شمالی وزیرستان ریمال میں 10 سالہ عثمان کی شہادت پر احتجاجی دھرنا، سڑکیں بند، فریقین کے بیانیے متضاد
شمالی وزیرستان کے علاقے ریمال پمپ کے سامنے مقامی افراد کی جانب سے جاری دھرنے نے شدت اختیار کرلی ہے، جہاں 10 سالہ بچے محمد عثمان کی مبینہ ڈرون حملے میں شہادت پر علاقے میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ شہید عثمان کی لاش پورے دن دھرنے میں رکھی گئی، جبکہ مظاہرین نے مین روڈ کو مکمل طور پر بند کر دیا ہے، جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی اور عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

مظاہرین کا مؤقف ہے کہ یہ حملہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ایک ڈرون کے ذریعے کیا گیا، جس کا نشانہ ایک معصوم بچہ بنا۔ مظاہرین نے الزام عائد کیا کہ یہ پہلا موقع نہیں، بلکہ ماضی میں بھی سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں عام شہری، خاص طور پر بچے متاثر ہوتے رہے ہیں۔ دھرنے میں شریک اتمنزئی مشران اور مقامی افراد نے مطالبہ کیا کہ معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔
دھرنے کے دوران ایک اہم پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب خسوخیل چیک پوسٹ پر تعینات متعلقہ سیکیورٹی فورسز یونٹ کے کرنیل نے مبینہ طور پر اپنی غلطی تسلیم کی اور فوری طور پر عثمان شہید کے اہل خانہ کے لیے ایک لاکھ روپے ایمرجنسی بنیادوں پر بھجوا دیے۔ تاہم، لواحقین اور مشران نے مالی امداد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس معاملے میں صرف مالی ادائیگی کافی نہیں بلکہ شفاف تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین ضروری ہے۔

سارا دن مذاکرات کی کوششیں جاری رہیں مگر کوئی حتمی پیش رفت نہ ہو سکی۔ مظاہرین نے اعلان کیا کہ آئندہ کے فیصلے کے لیے مامیت خیل قبیلے کے تمام مشران کو مشاورت کے لیے آج طلب کیا گیا ہے، جبکہ اتمنزئی مشران سمیت وزیرستان بھر کے عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ آئندہ فیصلے میں بھرپور شرکت کریں۔ اطلاعات کے مطابق امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو کل پورے وزیرستان کی سڑکیں دوبارہ بند کی جا سکتی ہیں۔ اتمنزئی قبیلے کے مذہبی و قبائلی رہنما مفتی بیت اللہ حفظہ اللہ نے بھی مظلوم خاندان کی حمایت میں کھل کر آواز بلند کی اور مظاہرین کے مؤقف کی مکمل تائید کی۔
دوسری جانب سیکیورٹی ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق علاقے میں کیا گیا ڈرون حملہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے نہیں بلکہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے عسکریت پسندوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔ ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ TTP نے عمداً یہ حملہ ایک گنجان آباد علاقے میں کیا تاکہ سیکیورٹی فورسز کو بدنام کیا جا سکے اور عوامی ردعمل کو ریاست کے خلاف بھڑکایا جائے۔
میدان میں دو متضاد بیانیوں کے ہوتے ہوئے زمینی حقائق کی تصدیق اور غیر جانبدار تحقیقات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ ایک طرف مقامی مشران فوجی اعتراف اور مالی امداد کو ثبوت سمجھ کر مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں، تو دوسری طرف ریاستی ذرائع اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم پر ڈال رہے ہیں۔ آج کے دھرنے اور آئندہ مشاورتی فیصلوں کے بعد وزیرستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری یا خرابی کا انحصار ان پیش رفتوں پر ہوگا، جو آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گی۔