پشاور میں فوگ کی تصدیق، سموگ کا خدشہ؛ شہریوں کو احتیاطی تدابیر کی ہدایت
سید فضل اللہ
پشاور: خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں فضاء میں نمی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب شہر بھر میں فوگ کا پھیلاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔ موسمیاتی ماہرین نے فوگ کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ پشاور میں ہوا میں نمی کی شرح 90 فیصد سے کم ہونے کے باعث فوگ نمودار ہو چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ روز سے شہر میں حدِ نگاہ بہتر رہی ہے، جو فوگ کی موجودگی کی علامت ہے۔ اگرچہ اس موسم میں سموگ کا خطرہ بھی ہوتا ہے، لیکن آج صبح گیارہ بجے کے بعد حد نگاہ میں نمایاں بہتری آئی، جو سموگ کے بجائے فوگ کی نشاندہی کرتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سموگ کے دوران حد نگاہ دن بھر میں بہت کم رہتی ہے اور آلودگی کی زیادہ مقدار فضاء میں موجود ہوتی ہے، جبکہ فوگ کے دوران حد نگاہ صبح کے بعد بہتر ہو جاتی ہے اور فضائی آلودگی کی سطح کم ہوتی ہے۔ پشاور میں موجودہ موسمی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین نے شہریوں کو آگاہ کیا کہ وہ سموگ اور فوگ کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار کریں تاکہ صحت کے مسائل سے بچا جا سکے۔
بارشوں کی کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات
پشاور میں اکتوبر سے اب تک بارشیں نہ ہونے کے سبب فوگ کا سلسلہ ایک ماہ قبل ہی شروع ہو چکا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر موسمیاتی تبدیلی خیبرپختونخوا، افسر خان نے خبردار کیا ہے کہ بارش کی کمی اور فضائی آلودگی میں اضافہ پشاور میں سموگ کے خدشات کو بڑھا سکتا ہے۔ اگر فضائی آلودگی میں مزید اضافہ ہوا تو فوگ کے سموگ میں تبدیل ہونے کا خدشہ ہے، جو صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
سموگ کے سبب سانس کی بیماریاں جیسے چیسٹ انفیکشن، دمہ، نمونیا اور دیگر سانس کی بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ماہرین نے شہریوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے ماسک کا استعمال کریں اور غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں۔
کاروباری طبقے اور شہریوں کے لیے احتیاطی تدابیر
افسر خان نے پشاور کے کاروباری طبقے، خصوصاً فوڈ کوکنگ شاپس اور ہوٹلوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کھلی فضاء میں دھواں پیدا کرنے والی سرگرمیوں سے اجتناب کریں تاکہ فضائی آلودگی کو کنٹرول کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی سرگرمیاں آلودگی کا باعث بنتی ہیں، جو سموگ کی شدت میں اضافہ کرتی ہیں اور شہریوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔
سموگ کی بڑی وجوہات میں فصلوں کی باقیات کو جلانا، زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں، اور ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چلنے والی صنعتیں شامل ہیں۔ اگر ان سرگرمیوں کو کنٹرول نہ کیا گیا تو فضاء میں آلودگی کی سطح میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو سموگ کے خطرے کو مزید بڑھا دے گا۔
شہریوں کے لیے احتیاطی ہدایات
شہریوں کو ماسک کا استعمال کرنے اور غیر ضروری طور پر باہر جانے سے گریز کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ خاص طور پر ان افراد کے لیے جو سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، جیسے کہ دمہ یا چیسٹ انفیکشن، انہیں زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ سموگ کے دوران ڈرائیونگ کرنے والے افراد کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر حد نگاہ انتہائی کم ہو جائے تو گاڑی چلانے سے گریز کریں تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔
پشاور کے رہائشی شاہد خان، جو کہ آج کل چارسدہ میں مقیم ایک سرکاری ملازم ہیں، نے بتایا کہ دھند کے باعث انہیں چارسدہ سے ملاکنڈ اپنی ڈیوٹی پر جانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سردیوں کے موسم میں دھند کے دوران سامنے کچھ دکھائی نہیں دیتا اور گاڑی کے شیشے بھی دھند کے باعث دھندلے ہو جاتے ہیں، جس سے سفر مشکل ہو جاتا ہے۔ موٹر سائیکل پر سفر کرتے وقت کپڑے گیلی ہو جاتے ہیں اور وقت پر دفتر پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
شاہد خان نے مزید کہا کہ دھند کے دوران ان کا کئی بار حادثہ بھی ہوا، جس میں وہ زخمی بھی ہوئے۔ شدید سردی میں کئی سویٹر اور موٹے کپڑے پہن کر نکلنا پڑتا ہے اور واپسی پر بھی تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دھند میں سفر کے بعد ان کی ہڈیوں میں درد شروع ہو جاتا ہے اور علاج کے لیے انہیں ہسپتال جانا پڑا۔ اس کے علاوہ، گلے اور سینے میں بھی مسائل پیدا ہو چکے ہیں، اور اس موسم میں کام پر جانے کی خواہش بھی ختم ہو جاتی ہے۔
تاجروں کو درپیش مسائل
پشاور کے تاجر رہنما عاطف خان نے بتایا کہ فوگ اور دھند کے باعث تاجروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھند کی وجہ سے تاجروں اور دکانداروں کو اپنی دکانوں تک پہنچنے میں دشواری ہوتی ہے، کیونکہ ٹرانسپورٹ کی فراہمی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، شہری بھی دھند کے باعث گھروں سے باہر نکلنے سے گریز کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں تاجروں کی فروخت پر منفی اثر پڑتا ہے۔
عاطف خان نے مزید بتایا کہ دکانداروں کے ساتھ کام کرنے والے ورکرز بھی تاخیر سے پہنچتے ہیں، جس کی وجہ سے دکان کی صفائی اور ڈسپلے کی تیاری میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ شام کے بعد دھند بڑھنے کے باعث دکانیں جلدی بند کرنی پڑتی ہیں، جس سے کاروبار متاثر ہوتا ہے اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سموگ اور فوگ کی وضاحت
ماہرین صحت کے مطابق، سموگ اور فوگ دونوں سردیوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن ان کے اثرات مختلف ہوتے ہیں۔ فوگ قدرتی دھند ہے، جو نمی کے باعث پیدا ہوتی ہے اور عمومی طور پر یہ سفید رنگ کی ہوتی ہے۔ فوگ صحت کے لیے اتنی نقصان دہ نہیں ہوتی، تاہم سموگ فضائی آلودگی اور دھوئیں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور اس کا رنگ بھورا یا کالا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ذیشان حیات نے بتایا کہ سموگ صنعتی دھوئیں، گاڑیوں کے دھوئیں، اور کھیتوں میں جلنے والے مواد کے ذرات سے بنتی ہے، جو صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتی ہے۔ سموگ سے سانس کی بیماریاں، سینے کے انفیکشن، اور دل کے امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔
سموگ سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ حکومت فضائی آلودگی کے اسباب کو کنٹرول کرے، خاص طور پر گاڑیوں کا دھواں اور زرعی مواد کو جلانے پر پابندی لگائے۔ ڈاکٹر ذیشان نے کہا کہ اگر بارش ہو جائے تو سموگ کی شدت کم ہو سکتی ہے، کیونکہ بارش آلودگی کے ذرات کو صاف کر دیتی ہے۔
فضائی آلودگی کی موجودہ صورتحال
پاکستان میں ہوا کے معیار کی موجودہ صورتحال تشویش ناک ہے۔ iqair.com کے مطابق، لاہور اس وقت سب سے زیادہ آلودہ شہر ہے، جہاں ہوا کے معیار کا انڈیکس (AQI) 1212 ہے، جو صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ پشاور میں AQI 258 ہے، جو بھی مضر صحت ہے۔ اسلام آباد میں AQI 219، راولپنڈی میں 189، اور ہری پور میں 152 ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کراچی میں ہوا کی صورتحال نسبتاً بہتر ہے، جہاں AQI 81 ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شہریوں کو فضائی آلودگی کے اثرات سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ماسک کا استعمال، گھروں کے اندر رہنا، اور غیر ضروری سرگرمیوں سے گریز کرنا سموگ کے نقصانات سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔