منظور پشتین اور ماہ رنگ بلوچ سمیت کئی پاکستانی رہنماؤں کے قتل کی سازش بے نقاب: داعش خراسان کے ضبط شدہ دستاویز میں اہم انکشافات
تحریر: عمر فاروق
کابل میں افغان طالبان کی سیکیورٹی فورسز نے حالیہ آپریشن میں اسلامک اسٹیٹ خراسان صوبہ کے نیٹ ورک سے اہم دستاویزات برآمد کی ہیں، جن میں پاکستان کے نمایاں سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی سازش کا انکشاف ہوا ہے۔
یہ کارروائی 10 جولائی 2024 کو جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلیجنس (GDI) نے کابل کے پولیس ڈسٹرکٹ 5 (PD5) میں کی، جس کے دوران آئی ایس کے پی یعنی داعش خراسان کے کئی اہم اراکین کو گرفتار کیا گیا اور بڑی مقدار میں اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا۔
دورانِ کارروائی برآمد ہونے والی دستاویز کو “ہٹ لسٹ” کہا جا رہا ہے، جس میں پاکستان کے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کئی نمایاں سیاسی اور سماجی شخصیات کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تر نام جمعیت علماء اسلام اور پشتون تحفظ موومنٹ کے اراکین کے ہیں، جو داعش خراسان کے نظریے کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔
اس فہرست میں شامل نمایاں افراد میں حافظ حمد اللہ، سابق سینیٹر اور جے یو آئی کے مرکزی رہنما، شامل ہیں جو پہلے ہی ایک حملے میں بچ چکے ہیں۔ دیگر جے یو آئی رہنما جن کے نام فہرست میں شامل ہیں، ان میں شامل ہیں جن میں مفتی کفایت اللہ، سابق رکن خیبر پختونخوا اسمبلی مفتی صادق، مولانا محمد انور، اور مولانا حفیظ اللہ نظامی شامل ہیں.
پشتون تحفظ موومنٹ کے نمایاں رہنما بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جن میں منظور پشتین، پی ٹی ایم کے چیئرمین اور انسانی حقوق کے معروف کارکن محسن داوڑ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے چیئرمین اور سابق رکن قومی اسمبلی نور اللہ ترین، زکیم خان وزیر، قاسم اچکزئی، لطیف وزیری، اور بادشاہ پشتین, اسی طرح بلوچستان کے اہم سیاسی رہنما جیسے محمود خان اچکزئی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ، اور اختر مینگل، بلوچستان نیشنل پارٹی کے چیئرمین، بھی داعش کی ترجیحی اہداف میں شامل ہیں۔
بلوچ انسانی حقوق کے کارکنان، جیسے ماہ رنگ بلوچ اور ڈاکٹر سمیع الدین کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ داعش کا مقصد انسانی حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دبانا ہے۔
کابل حکومت کے ایک زمہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس سازش کے پیچھے داعش خراسان نیٹ ورک کا ایک افغان شہری تھا، جسے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں تربیت فراہم کی گئی تھی، جبکہ اس کی شادی بھی ایک پاکستانی عورت سے ہوئی ہے جسے بعد میں افغانستان میں پاکستان کے مفادات کے خلاف کارروائیوں کے لیے تعینات کیا گیا۔ یہ بھرتی سرحد پار داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے کو اجاگر کرتی ہے، جس کا ہدف پاکستان کے سیاسی اور مذہبی رہنما ہیں۔
یہ انکشاف ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان پہلے سے ہی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتے ہوئے حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔ داعش خراسان، جو اپنی بربریت اور خطے میں پھیلنے کی خواہش کے لیے مشہور ہے، پاکستان میں استحکام کو مزید متاثر کر سکتا ہے۔ افغان طالبان، جو داعش کے خلاف برسرپیکار ہیں، اس آپریشن کو اپنی انسداد دہشت گردی کی مہم کا حصہ سمجھتے ہیں۔
جے یو آئی اور پی ٹی ایم کے رہنماؤں کا داعش کی فہرست میں شامل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں مذہب، سیاست، اور شدت پسندی کے درمیان ایک پیچیدہ ربط موجود ہے۔ جے یو آئی کی مذہبی حمایت اور پی ٹی ایم کی پشتون حقوق کے لیے سرگرمیاں انہیں انتہا پسند گروہوں کے لیے ایک واضح ہدف بناتی ہیں۔
افغان سیاسی تجزیہ کار امان اللہ ہوتکی نے اس معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: “آئی ایس کے پی کی یہ فہرست ایک سنگین وارننگ ہے کہ دہشت گرد گروپ اب خطے کی سرحدوں سے بالاتر ہو کر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ افغان اور پاکستانی رہنما دونوں اس صورتحال کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے مشترکہ حکمت عملی اپنائیں ورنہ خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔”
آئی ایس کے پی کی اس سازش کا انکشاف جنوبی ایشیا میں دہشت گرد تنظیموں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا ثبوت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے یہ وقت نہایت اہم ہے کہ وہ اپنے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو تیز کریں، تاکہ داعش جیسی بین الاقوامی دھشتگرد تنظیم کے منصوبے ناکام ہو سکیں اور خطے میں مزید خونریزی نہ ہو۔
عمر فاروق
عمر فاروق وائس اف امریکہ اردو سروس، فرینٹئر پوسٹ، اردو نیوز اور دیگر قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ گزشتہ 11 سال سے صحافتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں وہ خیبر پختون خواہ میں انویسٹیگیٹو اور ملٹی میڈیا جرنلزم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں