خواجہ سراؤں نے عدم تحفظ کی اصل وجہ قانون ساز اسمبلیوں میں اپنی غیرموجودگی کو قرار دیا۔

خواجہ سراؤں نے عدم تحفظ کی اصل وجہ قانون ساز اسمبلیوں میں اپنی غیرموجودگی کو قرار دیا۔

زاہد اللہ خان

پاکستان کے قانون ساز اسمبلیوں میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے خواجہ سرا عدم تحفظ، معاشی مسائل اور دیگر معاشرتی ناہمواریوں سے دوچار ہیں جس سے نمٹنے کیلئے خواجہ سرا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اہل افراد نے کئی بار صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابی عمل میں حصہ بھی لیا مگر خواجہ سراؤں کے مطابق منفی معاشرتی رویوں کی وجہ سے انہیں وہ پذیرائی نہیں ملتی جس سے وہ اپنی کمیونٹی کے حقوق کیلئے موثر آواز اُٹھائیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فراہم کردہ معلومات کے مطابق جنرل الیکشن 2024 کیلئے دو خواجہ سراؤں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں پر قسمت آزمایا، تاہم خیبرپختونخوا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عام انتخابات میں خواجہ سرا صوبیا خان نے پی کے 81 پشاور سے حصہ لیا تھا۔
30 سالہ صوبیا خان خیبرپختونخوا کے ضلع پشاور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا نے جنرل الیکشن 2024 میں اصل نام محمد بلال کے نام سے بطور امیدوار رُکن صوبائی اسمبلی کیلئے الیکشن لڑا۔ مگر الیکشن میں انہیں اپنے حلقہ انتخاب سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے 39 ووٹ ملے اور 35 امیدواروں میں 17ویں نمبر پر رہی، جبکہ کامیاب امیدوار قاسم علی شاہ نے 44 ہزار 310 ووٹ حاصل کئے تھے۔
صوبیا خان کہتی ہے کہ پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا کے خواجہ سرا کئی سماجی ، معاشرتی، معاشی اور جسمانی عدم تحفظ کے مسائل سے دو چار ہیں اور ان سب مسائل کی بنیادی وجہ قانون سازی سے خواجہ سراؤں کو لاتعلق رکھنا ہے۔
صوبیا خان کا کہنا ہے ” میں نے ایک ایسے معاشرے میں الیکشن لڑنے کی ہمت کی جہاں پر خواتین کی قبولیت بھی مشکل سے ہوتی ہے اور خواجہ سرا الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے مگر میں سمجھتی ہوں کہ دیگر شہریوں کی طرح ہمارا بھی برابر حق ہے کہ قانون سازی میں حصہ لیں”۔
صوبیا خان نے دوران گفتگو افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن مہم کے دوران منفی سماجی رویوں کی وجہ سے کمپین میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر اپنی برادری کی لاچاری کو سامنے رکھتے ہوئے ہمت کا مظاہرہ کر رہی تھی تاکہ برادری کے مسائل کی حل کیلئے اپنی مقصد میں کامیاب ہوجاؤ۔
اُن کا کہنا ہے “میرے مخالف امیدوار اپنے جلسوں میں مجھے ہیجڑا کے نام سے پکارتے تھے جس کا مقصد ووٹرز کو مجھ سے متنفر کرنا تھا اور سوال اُٹھاتے تھے کہ اب آپ کی نمائندگی ایک خواجہ سرا کیسے کرے گی، اسی طرح میرے پولنگ ایجنٹ کو بھی ہیجڑے کی نمائندگی کا طعنہ دیا جاتا تھا جس پر مجھے انتہائی دُکھ ہو رہا تھا”۔
خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں کی حقوق کیلئے کام کرنے والے کئی تنظیمیں موجود ہیں لیکن خواجہ سراؤں کا شکوہ ہے کہ متعلقہ تنظیمیں اُن کے حقوق اور فلاح کیلئے صحیح معنوں میں عملی اقدامات نہیں کرتے ہیں۔
صوبیا خان نے ان تنظیموں کے بارے میں بتایا کہ اُنکے الیکشن کے دوران چند تنظیموں نے ان کی اقدام کو سراہا اور تعاؤن کی پیشکش بھی کی مگر عملی طور پر کسی بھی تنظیم نے مالی یا افرادی قوت کی شکل میں تعاؤن نہیں کیا، جس سے مجھے مہم میں انتہائی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

تاہم پاکستانی قوانین کے مطابق کوئی بھی غیرسرکاری رجسٹرڈ تنظیم کسی کی الیکشن مہم یا سیاسی ایجنڈے کو فروغ نہ دینے کی پابند رہے گی۔

صوبیا خان نے مزید کہا کہ”مجھے اپنے خاندان کی طرف سے ہر قسم کا اخلاقی اور مالی تعاؤن حاصل ہے، یہی تعاؤن مجھے ہمت دیتی ہے اور اس ہمت کے ساتھ میں اگلی الیکشن میں بھی بھرپور جذبے کے ساتھ حصہ لوں گی کیونکہ میرے آگے ایک بڑا مقصد پڑا ہوا ہے، وہ یہ کہ خواجہ سرا قانون سازی میں قانون سازی کا باقاعدہ حصہ بنے، اور انہیں معاشی اور جانی تحفظ حاصل ہوسکیں”۔

اقوام متحدہ کے ذیلی اداے یونائیٹڈ نیشن ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی )رجسٹرڈ تنظیم کے مطابق پاکستان میں سال 2015 سے 2023 تک 90 خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا ہیں جبکہ 2000 سے زائد کے خلاف تشدد کے مختلف کیسز رپورٹ کئے گئے ہیں، تاہم خواجہ سراؤں کی حقوق پر کام کرنے والی مقامی تنظیم منزل فاؤنڈیشن کے مطابق گزشتہ نو سالوں کے دوران 137 خواجہ سراؤں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔

پاکستان میں جینڈر انٹرایکٹیو الائنس کے تحقیقی ادارے کے ڈائریکٹر اور عوامی نیشنل پارٹی کے ٹرانس افئیر کے مرکزی سیکرٹری مہروب معیز اعوان کہتی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ٹرانسجینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018 پاس کیا گیا ہے مگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے اسے متنازع بنا کر وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے جس کے عدالت نے دو شقیں ہٹا کر فیصلہ جاری کیا، ہم نے بعد میں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جو اب تک زیرالتو ہے۔
مہروب نے گزشتہ الیکشن میں حصہ لینے والے خواجہ سراؤں کو سراہتے ہوئے کہا کہ “بہت اچھی بات ہے کہ صوبیا نے الیکشن میں حصہ لیا گو کہ ان کو سماجی اور مالی مسائل کا سامنا تھا لیکن میرے خیال میں اسکے ساتھ سیاسی وابستگی بھی ہونی چاہئے کیونکہ جب تک آپ کے پیچھے کسی سیاسی پارٹی کی تعاؤن نہ ہو تو ایسے میں الیکشن لڑنا نہایت مشکل بن جاتا ہے”۔
انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا “خواجہ سرا کو صنفی شناخت پر ووٹ نہیں مل سکتی ہے بلکہ انہیں ایک پارٹی کی سیاسی منشور پر ووٹ ملے گا لیکن اگر پھر بھی آپ نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنا ہے تو اسکے لئے کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا پڑے گا اور پارٹی ایسی جس کے ساتھ آپ کی نظریاتی وابستگی ہو”۔
“اسی لئے میرا ارادہ ہے کہ اگلی دفعہ ایبٹ آباد سے مئیر الیکشن عوامی نیشنل پارٹی کے انتخابی نشان کے تحت لڑوں”۔

یہ سوال کہ پاکستان کے بیشتر مذہبی و سیاسی پارٹیوں میں خواجہ سراؤں کو الیکشن میں ٹکٹ دینے پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی تو اس حوالے سے کسی بھی مذہبی پارٹی کے رہنماؤں نے موقف دینے سے گریز کیا۔
خواجہ سراووں کے مسائل، عدم تحفظ، قانون سازی اور خصوصا قانون ساز اسمبلیوں میں اس کمیونٹی کی نمائندگی سے متعلق جب خیبرپختونخوا حکومت کے کابینہ ممبر اور صوبائی وزیر برائے قانون و انسانی حقوق افتاب عالم آفریدی سے رابطہ کیا تو انہوں نے موقف دہنے سے گریز کیا.

ویب سائٹ | متعلقہ پوسٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے