پشاور یونیورسٹی کا 9 شعبے بند کرنے کا فیصلہ

پشاور یونیورسٹی کا 9 شعبے بند کرنے کا فیصلہ

پشاور: پشاور یونیورسٹی نے کم داخلوں کے باعث اپنے 9 بی ایس (BS) پروگرامز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ رواں سیمسٹر (فال 2025) سے نافذ ہوگا۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق جن شعبہ جات کو بند کیا جا رہا ہے ان میں ڈیولپمنٹ اسٹڈیز، جغرافیہ، جیولوجی، تاریخ، سوشل انتھروپالوجی، شماریات، لاجسٹکس اینڈ سپلائی چین اینالٹکس، ہیومن ڈیولپمنٹ اینڈ فیملی اسٹڈیز اور ہوم اکنامکس شامل ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق بی ایس ہیومن ڈیولپمنٹ اینڈ فیملی اسٹڈیز میں صرف ایک طالب علم نے داخلہ لیا، ڈیولپمنٹ اسٹڈیز، لاجسٹکس اینڈ سپلائی چین اینالٹکس اور ہوم اکنامکس میں دو دو طلبہ، جغرافیہ اور تاریخ میں تین تین، سوشل انتھروپالوجی میں پانچ، شماریات میں سات اور جیولوجی میں 14 طلبہ نے داخلہ لیا۔

یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ “یونیورسٹی کے پہلے سے منظور شدہ ضوابط کے مطابق اگر کسی پروگرام میں 15 سے کم طلبہ داخل ہوں تو وہ داخلہ منسوخ تصور کیا جائے گا۔ موجودہ داخلہ ریکارڈ کے مطابق مذکورہ پروگرامز میں طلبہ کی تعداد مقررہ حد سے کم ہے، اس لیے یہ پروگرامز بند کیے جا رہے ہیں۔”

نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ متاثرہ طلبہ کو متبادل پروگرامز میں داخلے کے لیے ڈائریکٹر ایڈمیشنز کے دفتر سے رجوع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ ان کا تعلیمی مستقبل محفوظ رہ سکے۔

ذرائع کے مطابق یونیورسٹی میں اس وقت تقریباً 69 شعبے ہیں جن میں سے ہر شعبہ چار سالہ بی ایس پروگرام میں 60 طلبہ کو داخلہ دیتا ہے۔ تاہم کئی بڑے شعبہ جات جیسے ریاضی، کیمیا، سوشل ورک، اردو، پشتو، صحافت و ابلاغ عامہ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور اربن ایریا پلاننگ میں بھی کم داخلے رپورٹ ہوئے ہیں۔

جبکہ فارمیسی، انگلش، سائیکالوجی، کمپیوٹر سائنس، قانون، ماحولیاتی علوم، طبیعیات، بین الاقوامی تعلقات، سیاسیات، امن و تنازعہ مطالعہ، کرمنالوجی اور مینجمنٹ سائنسز میں مناسب تعداد میں طلبہ نے داخلہ لیا ہے۔

یونیورسٹی کے ترجمان نے بتایا کہ کم داخلوں کی متعدد وجوہات ہیں، جن میں طلبہ کی رہنمائی اور کیریئر کونسلنگ کی کمی بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق طلبہ زیادہ تر ایسے مضامین کا انتخاب کرتے ہیں جن میں نوکری کے مواقع زیادہ ہوں جیسے الیڈ ہیلتھ سائنسز اور کمپیوٹر سائنس۔ زبانوں اور نظریاتی مضامین میں طلبہ کی دلچسپی کم ہے کیونکہ مارکیٹ میں ان کی گنجائش محدود ہے۔

اکیڈمک ماہر یوسف علی کے مطابق بی ایس پروگرام میں کم داخلوں کی ایک بڑی وجہ اس پروگرام کا بغیر مناسب منصوبہ بندی کے بیک وقت یونیورسٹیوں اور کالجوں میں آغاز ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب یونیورسٹیاں اور کالج دونوں ایک جیسے کورسز پیش کر رہے ہیں، تاہم یونیورسٹی کی فیس بہت زیادہ ہے۔ پشاور یونیورسٹی میں فی سمسٹر اوسط فیس 75 ہزار روپے یعنی سالانہ ڈیڑھ لاکھ روپے ہے، جبکہ یہی کورسز کالج سطح پر صرف 7 ہزار روپے فی سمسٹر میں دستیاب ہیں۔

پشاور یونیورسٹی اپنے مالی بحران کے باعث باقاعدگی سے فیسوں میں اضافہ کرتی ہے، جو اکثریتی طلبہ کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ صوبے میں جامعات کی تیزی سے بڑھتی تعداد بھی یونیورسٹیوں میں کم داخلوں کی ایک وجہ ہے۔ فی الحال خیبر پختونخوا میں 34 سرکاری اور 10 نجی جامعات جبکہ تقریباً 1000 کالجز (سرکاری و نجی) کام کر رہے ہیں۔

یوسف علی نے کہا کہ جن شعبہ جات میں کم داخلے رپورٹ ہوئے ہیں، وہ جدید مارکیٹ اور ملازمت کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کے نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں انتظامیہ ناکام رہی ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو بی ایس پروگرام کے مستقبل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیونکہ یہ نظام اس وقت کئی سنگین مسائل سے دوچار ہے۔

اس خبر کی زیادہ تر معلومات ڈان نیوز (انگلش ویب سائٹ )میں 27 اکتوبر 2025 کو شائع ہونے والی خبر سے لی گئی ہیں۔

ویب سائٹ |  متعلقہ پوسٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے