آزاد کشمیر میں صحافیوں پر دباؤ، سنسرشپ اور ہراسانی کی نئی رپورٹ جاری

آزاد کشمیر میں صحافیوں پر دباؤ، سنسرشپ اور ہراسانی کی نئی رپورٹ جاری

مظفرآباد: آزاد جموں و کشمیر میں صحافی سنسرشپ، ہراسانی، قانونی دباؤ اور مالی مشکلات کے باعث شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ یہ انکشاف فریڈم نیٹ ورک کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کیا گیا ہے جس کا اجرا 18 ستمبر کو مظفرآباد کے سنٹرل پریس کلب میں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق خطے میں صحافتی آزادی نہایت نازک صورتحال سے دوچار ہے اور صحافیوں کو مختلف اداروں، بااثر طبقوں، انتہا پسند گروہوں اور مقامی مافیاز کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کو کئی سمتوں سے خطرات لاحق ہیں، جن میں حکومتی اداروں کی جانب سے دباؤ، خود سنسرشپ، قانونی رکاوٹیں اور ڈیجیٹل خاموشی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کوئی مخصوص قانون موجود نہیں، جس کی وجہ سے ہراسانی، دھمکیوں اور حملوں کے واقعات عام ہیں۔

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے رپورٹ کے اجرا کے موقع پر کہا کہ مقامی میڈیا مالی مسائل، حکومتی رکاوٹوں اور سلامتی کے خدشات میں گھرا ہوا ہے، تاہم مقامی میڈیا کا ابھرنا ایک مثبت پہلو ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے غور و فکر کا سامان فراہم کرے گی تاکہ مسائل کا مشترکہ حل نکالا جا سکے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ صحافیوں کی مالی حالت نہایت خراب ہے۔ کئی صحافی یا تو بغیر تنخواہ کے کام کرتے ہیں یا انتہائی کم اجرت پر گزارہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات ادارے انہیں اشتہارات لانے پر مجبور کرتے ہیں، جبکہ صنعتی ضابطہ کاری کے فقدان نے ان کے کام کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔

قانونی دباؤ کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت نے “کمیونٹی” کی تعریف کو قوانین میں شامل کرلیا ہے تاکہ تنقیدی صحافت پر کارروائی کی جا سکے۔ اس قانون کے تحت “کمیونٹی” کا مذاق اڑانے پر سات سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

رپورٹ نے آزاد کشمیر میں خواتین صحافیوں کی کم نمائندگی کو بھی تشویش ناک قرار دیا، جہاں 85 صحافیوں میں صرف 5 خواتین ہیں اور ان میں سے صرف دو پریس کلب کی رکن ہیں۔

روزنامہ جہاں کشمیر کے ایڈیٹر ابرار حیدر کے مطابق ڈیجیٹل میڈیا تیزی سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی جگہ لے رہا ہے، تاہم یہ شعبہ بھی سنسرشپ اور خطرات سے محفوظ نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھارتی بیانیے کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ کشمیری صحافیوں کی آوازوں کو دبایا جاتا ہے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ صحافیوں کو بااختیار بنایا جائے، ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بڑھایا جائے، صحافیوں کے خلاف جرائم میں استثنیٰ ختم کیا جائے اور میڈیا میں صنفی حساسیت کو فروغ دیا جائے۔ ساتھ ہی معلومات تک رسائی کے مؤثر نظام اور ڈیجیٹل میڈیا کے لیے معاونت کو بھی ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔

ویب سائٹ |  متعلقہ پوسٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے