مروت ڈانس: ثقافت یا تماشا؟

مروت ڈانس: ثقافت یا تماشا؟

افنان مروت

رسم و رواج، ثقافت اور روایات کسی بھی قوم کی پہچان، عزت اور اجتماعی شعور کی علامت ہوتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقوں، خاص طور پر لکی مروت اور اس کے آس پاس کے اضلاع میں آباد مروت قبیلہ ایک قدیم اور معزز پختون قبیلہ ہے، جو صدیوں سے غیرت، مہمان نوازی، روایتی اقدار اور شرافت کے لیے جانا جاتا ہے۔
مگر افسوس کہ آج کا نوجوان مروت اپنی شناخت، عظمت اور اقدار کو بھول چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں “مروت ڈانس” کے نام سے جو رجحان پھیل رہا ہے، وہ نہ تو ثقافت ہے، نہ فن، اور نہ ہی کوئی قابلِ فخر تفریح۔ اس میں نوجوان لڑکے عورتوں کے لباس، دوپٹے اور زیورات پہن کر نسوانی انداز میں ناچتے ہیں اور ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔

یہ سلسلہ اب صرف شادیوں یا میلوں تک محدود نہیں رہا بلکہ عید، جمعہ، عوامی اجتماعات اور بازاروں میں بھی یہی تماشا کیا جا رہا ہے۔ ویڈیوز میں نوجوانوں کو چادریں اوڑھے، جھمکے پہنے، نسوانی آواز میں گاتے اور گلیوں میں ناچتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ مناظر نہ صرف افسوسناک ہیں بلکہ ہماری فکری، ثقافتی اور تعلیمی تنزلی کی علامت بھی ہیں۔اس زوال کے اسباب کیا ہیں؟

کم تعلیمی شرح
لکی مروت اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں تعلیمی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ اسکولوں کی ناکافی تعداد، اساتذہ کی غیر حاضری اور تعلیمی اداروں کی خراب حالت نے نئی نسل کو شعور اور تربیت سے محروم رکھا ہے۔ جب علم نہ ہو، تو شعور بھی نہیں ہوتا اور ایسی ہی بے مقصد سرگرمیاں جنم لیتی ہیں۔

تفریحی سہولیات کا فقدان
علاقے میں نہ سینما ہے، نہ لائبریری، نہ کھیلوں کے میدان، اور نہ ہی آرٹ یا تھیٹر۔ جب نوجوانوں کو کوئی مثبت تفریح میسر نہ ہو، تو وہ سستی اور سطحی تفریح کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ “مروت ڈانس” اسی خلا کا نتیجہ ہے، جہاں تفریح کو تماشہ بنا دیا گیا ہے۔

ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی کمی
جن علاقوں میں نہ موسیقی ہو، نہ مشاعرہ، نہ مکالمہ یا تھیٹر, وہاں ثقافت کا مطلب صرف ناچ گانا اور مذاق ہی رہ جاتا ہے۔ اگر تعلیمی اور ثقافتی ادارے مثبت سرگرمیاں نہ دیں، تو نوجوان ایسی چیزوں کو ہی “انٹرٹینمنٹ” سمجھنے لگتے ہیں۔

سوشل میڈیا کا بے لگام استعمال
آج کے نوجوان کے پاس موبائل فون ہے، مگر رہنمائی نہیں۔ وہ TikTok، Instagram اور Facebook پر جو کچھ دیکھتا ہے، وہی دہرانے لگتا ہے۔ وائرل ہونے کی خواہش، سستی شہرت، اور “لائکس” کی لت نے انہیں اپنی اصل پہچان بھلا دی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی یہ حرکات ان کے قبیلے اور علاقے کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں۔
ہم کیا کر سکتے ہیں؟

بزرگوں، والدین اور اساتذہ کا کردار
اب وقت ہے کہ مروت قبیلے کے سنجیدہ لوگ آگے آئیں۔ ہر گاؤں، ہر محلے اور ہر اسکول میں نوجوانوں کو سمجھایا جائے کہ ثقافت اور تماشے میں فرق کیا ہوتا ہے۔ ان کی رہنمائی کی جائے، ان سے مکالمہ کیا جائے، اور انہیں اپنی اصل روایات اور غیرت سے جوڑا جائے۔

تعلیمی اداروں کا فعال کردار
اسکول، کالج اور جامعات کو ایسی ورکشاپس، سیمینارز اور مشاعروں کا انعقاد کرنا چاہیے جہاں نوجوانوں کو مہذب انداز میں اظہار رائے کا موقع ملے۔ صرف کتابوں سے علم نہیں آتا تربیت بھی ضروری ہے۔ حکومتی سرپرستی میں مثبت سرگرمیوں کا فروغ اگر حکومت نوجوانوں کو صحیح راستہ دینا چاہتی ہے، تو علاقے کھیلوں کے میدان، لائبریریاں، آئی ٹی سینٹرز، موسیقی اور تھیٹر کے پروگرامز شروع کیے جائیں۔ نوجوانوں کی توانائی کو تعمیراتی سمت میں لگایا جائے۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی ثقافت کو سستی ویڈیوز میں دفن کرنا چاہتے ہیں؟ یا اسے عزت اور وقار کے ساتھ اگلی نسلوں تک پہنچانا چاہتے ہیں؟ مروت قبیلہ صرف ایک نام نہیں، بلکہ ایک تاریخ ہے۔ اگر ہم نے آج کے نوجوانوں کو نہ سنبھالا، تو کل یہی نوجوان ہمارا مذاق بنیں گے اور ہمارا فخر، ہماری شرمندگی بن جائے گا۔

ویب سائٹ |  متعلقہ پوسٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے