طالبان حکومت کے سات نئے قوانین: افغانستان کے لیے مواقع یا نئے خدشات؟

طالبان حکومت کے سات نئے قوانین: افغانستان کے لیے مواقع یا نئے خدشات؟

عمر فاروق

طالبان حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی سب سے بڑی قانون سازی کا اعلان کیا ہے۔ وزارت انصاف کے مطابق، سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی منظوری سے سات نئے قوانین نافذ کیے گئے ہیں، جن کا مقصد افغانستان میں قانونی، سماجی اور اقتصادی نظام کو اسلامی اصولوں کے تحت مضبوط بنانا ہے۔

ان قوانین میں زمینوں پر ناجائز قبضے کی روک تھام، بھیک مانگنے کے سدباب، شکایات کے ازالے کے لیے نیا نظام، مالیاتی خدمات کی اصلاحات، صنعتی علاقوں کی ترقی، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے قوانین شامل ہیں۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ یہ قوانین عوامی مسائل کو حل کرنے اور معاشرتی ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔

زمینوں پر ناجائز قبضے سے متعلق قانون ایک دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش ہے، جو افغانستان کے اندرونی تنازعات میں شدت کا باعث رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر یہ قانون شفاف طریقے سے نافذ کیا جائے تو تنازعات میں کمی ہو سکتی ہے۔ تاہم، خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ عمل کہیں طالبان کے اپنے مفادات کو ترجیح دینے کا سبب نہ بنے۔

بھیک مانگنے کے سدباب اور بھکاریوں کو متبادل فراہم کرنے کا قانون ایک مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن افغانستان کی موجودہ اقتصادی صورت حال، بین الاقوامی پابندیاں اور وسائل کی کمی اس قانون کے عملی نفاذ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ طالبان حکومت غربت کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیسے کرے گی؟

شکایات کی سماعت کے لیے نظام کی تشکیل ایک امید افزا اقدام ہو سکتا ہے۔ تاہم، ماضی میں طالبان کے طرز حکمرانی کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ ہے کہ یہ نظام کہیں صرف حکومت کے حامیوں کے لیے مخصوص نہ ہو۔ اگر اس قانون کا استعمال مخالفین کو دبانے کے لیے کیا گیا تو عوام کا اعتماد مزید کمزور ہو سکتا ہے۔

منی چینجرز اور مالیاتی خدمات سے متعلق قانون کا مقصد معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔ لیکن افغانستان کی غیر رسمی معیشت، وسائل کی کمی اور بین الاقوامی امداد کی معطلی اس اقدام کو مؤثر بنانے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔

صنعتی علاقوں سے متعلق قانون ملک کی معیشت کے لیے ایک امید ہو سکتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی سرمایہ کاری کے بغیر یہ منصوبہ صرف کاغذی حد تک محدود رہ سکتا ہے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قانون کے تحت طالبان نے اسلامی اقدار کو نافذ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ تاہم، انسانی حقوق کے ماہرین اس اقدام کو آزادی اظہار اور خواتین کے حقوق پر پابندی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ قانون بین الاقوامی سطح پر طالبان کی سفارتی حیثیت کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔

افغان عوام نئے قوانین کے عملی نفاذ کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی کامیابی کا انحصار طالبان حکومت کی نیت، شفافیت اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی اہلیت پر ہے۔ اگر یہ قوانین صرف طالبان کے نظریاتی ایجنڈے کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہوئے تو عوامی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

یہ قوانین طالبان کی داخلی ترجیحات کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان کے بین الاقوامی تعلقات پر اثرات بھی نمایاں ہو سکتے ہیں۔ جہاں زمین کے تنازعات اور معیشت سے متعلق اقدامات مثبت تاثر دے سکتے ہیں، وہیں سخت گیر سماجی قوانین تنقید کا باعث بن سکتے ہیں۔

طالبان کے منظور کردہ یہ سات قوانین افغانستان میں نظام حکومت کو مستحکم کرنے کی کوشش ہیں۔ لیکن ان کی کامیابی کا انحصار شفاف اور منصفانہ عمل پر ہوگا۔ اگر یہ قوانین عوامی فلاح کے بجائے صرف طالبان کی طاقت کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بنے تو افغانستان کو مزید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ وقت طالبان حکومت کے لیے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر اعتماد حاصل کرنے کا امتحان ہے، اور ان قوانین کے نتائج آنے والے مہینوں میں واضح ہوں گے۔

ویب سائٹ | متعلقہ پوسٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے