آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں سرکاری محکموں اور پبلک سیکٹر اداروں میں مبینہ کرپشن اور خورد برد کی نشاندہی
پشاور: آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے مالی سال 24-2023ء کی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں خیبرپختونخوا کے سرکاری محکموں اور پبلک سیکٹر اداروں میں 165 ارب روپے کی مبینہ مالی بے قاعدگیوں، کرپشن، اور خورد برد کا انکشاف کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں صوبے کے مختلف محکموں اور اداروں میں بڑے پیمانے پر مالی بے قاعدگیوں، اصولوں کی خلاف ورزیوں، اور شفافیت کی کمی کے معاملات سامنے آئے ہیں۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق، مختلف سرکاری ادارے اور محکمے مالیاتی بے ضابطگیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جس سے حکومتی وسائل پر دباؤ اور عوامی خدمت کے معیار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
نمایاں بے قاعدگیاں اور کرپشن کے کیسز
رپورٹ میں تفصیل سے مختلف محکموں میں مالی بے ضابطگیوں کا ذکر کیا گیا ہے جسمیں خیبر پختونخوا ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (ٹیوٹا) میں 1 ارب 54 کروڑ روپے کی مالی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس طرح خیبرپختونخوا اکنامک زونز ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی میں 1 ارب 72 کروڑ روپے کا نقصان رپورٹ کیا گیا ہے۔ گورنمنٹ پرنٹنگ پریس میں 1 ارب 21 کروڑ روپے کی مالی خورد برد سامنے آئی ہے. ہائیڈل ڈیویلپمنٹ فنڈ میں 18 ارب 78 کروڑ روپے کی بے قاعدگیاں رپورٹ ہوئیں۔ روپورٹ کے مطابق صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ریسکیو 1122 میں 2 ارب 77 کروڑ روپے مالیت کی مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس طرح سرحد منرلز لمیٹڈ پشاور میں 12 کروڑ 92 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
دیگر محکموں میں مالیاتی بے قاعدگیاں
آڈٹ رپورٹ میں خیبر پختونخوا کے 28 صوبائی محکموں میں مجموعی طور پر 27 ارب 38 کروڑ روپے کی مالی بے قاعدگیوں اور مبینہ کرپشن کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ کچھ اہم محکموں کی تفصیل درج ذیل ہے:
- اسٹیبلشمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ: 69 کروڑ روپے کی بے قاعدگیاں۔
- محکمہ زراعت: 2 ارب 42 کروڑ روپے کی مالی بے قاعدگیاں۔
- اوقاف ڈیپارٹمنٹ: 1 ارب 29 کروڑ روپے کی مالی خورد برد۔
- سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ: 30 ارب 46 کروڑ روپے کی بے قاعدگیاں۔
- انرجی اینڈ پاور ڈیپارٹمنٹ: 7 ارب روپے کی مالی بے قاعدگیاں۔
- ماحولیات اور جنگلات: 4 ارب 17 کروڑ روپے کا نقصان۔
- فنانس ڈیپارٹمنٹ: 8 ارب 46 کروڑ روپے کی مالی بے قاعدگیاں۔
- ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ: 4 ارب 21 کروڑ روپے کی بے قاعدگیاں۔
- ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ: 1 ارب 68 کروڑ روپے کی مبینہ کرپشن۔
- ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ: 20 ارب 44 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیاں۔
- لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ: 2 ارب 97 کروڑ روپے کا نقصان۔
دیگر محکمے اور بے قاعدگیوں کے کیسز
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں مزید انکشاف ہوا کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ، ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ، ایکسائز ڈیپارٹمنٹ، اور فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں بھی کروڑوں روپے کی مالی بے قاعدگیوں کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ ان محکموں میں بھی مالی اصولوں کی خلاف ورزیوں اور شفافیت کی کمی کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے صوبے کے مالیاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
آڈٹ رپورٹ کے اثرات اور سفارشات
آڈٹ رپورٹ خیبر پختونخوا حکومت اور اس کے مالیاتی نظم و نسق پر سوالات کھڑے کرتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالیاتی بے قاعدگیوں کو روکنے کے لیے شفاف اور سخت مالیاتی اصولوں کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے وسائل کا ضیاع روکا جا سکے اور حکومتی محکموں کو ذمہ داری سے کام کرنے کا پابند بنایا جا سکے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے سفارش کی ہے کہ ان محکموں میں مالی نظم و ضبط کو بہتر بنانے اور بے قاعدگیوں کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ مستقبل میں کرپشن اور مالی خورد برد کے کیسز کا سدباب ممکن ہو۔
عوامی ردعمل اور حکومتی اقدامات
آڈٹ رپورٹ کے اجراء کے بعد عوامی سطح پر ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے عوام اور سول سوسائٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان بے قاعدگیوں کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ سرکاری اداروں اور محکموں میں شفافیت اور مالیاتی نظم و ضبط کی کمی کی وجہ سے عوام کا اعتماد مجروح ہوا ہے، جسے بحال کرنے کے لیے حکومت کو مؤثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
یہ رپورٹ صوبے میں مالیاتی نظام میں شفافیت اور احتساب کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ مستقبل میں عوامی وسائل کے بہتر استعمال اور حکومتی خدمات کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ان سفارشات پر عمل درآمد ضروری ہے۔