صوابی سٹی پولیس سٹیشن میں ہونے والا دھماکہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے رونما ہوا؟
انیس ٹکر
صوابی: صوابی سٹی پولیس اسٹیشن کے مال خانے میں رکھے گئے بارودی مواد کے پھٹنے سے ایک بچے سمیت دو افراد جاں بحق جبکہ 25 زخمی ہوگئے ہیں۔
صوابی پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے مال خانے میں آگ لگ گئی، جس کے نتیجے میں بارودی مواد میں دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے میں ایک بچہ اور ایک شخص جان بحق ہوگئے، جبکہ 17 پولیس اہلکار اور 8 قیدی زخمی ہوئے۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ زوردار دھماکے کے وقت پولیس اسٹیشن کے سامنے موجود ایک بچہ اور ایک شخص بھی شدید زخمی ہوئے، جو بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ یہ بارودی مواد پولیس نے 2016 میں صوابی سلیم خان شاخ پر ایک ٹرک سے برآمد کیا تھا، جو کہ ابھی تک مال خانے میں موجود تھا کیونکہ عدالت نے اس کی تلفی کا کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر صوابی ہارون الرشید نے میڈیا کو بتایا کہ مال خانے میں موجود بارودی مواد بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے دھماکے کا شکار ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائیں گی اور غفلت برتنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ڈی پی او نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ان خبروں کی بھی تردید کی کہ دھماکے کے وقت تھانے میں کوئی بااثر سیاسی شخص موجود تھا۔
ریسکیو 1122 صوابی کے ترجمان نے بتایا کہ رات کو صوابی سٹی پولیس اسٹیشن سے آگ لگنے کی اطلاع ملنے پر فوراً فائر فائٹرز کو بھیجا گیا۔ کچھ دیر بعد دھماکے کی اطلاع ملی تو مزید اہلکار بھیج دیے گئے۔ ابتدائی طور پر 23 زخمیوں کو قریبی ڈی ایچ کیو صوابی اور باچا خان میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال صوابی کے ڈی ایم ایس ایڈمن ڈاکٹر طفیل احمد نے بتایا کہ رات کے وقت دھماکے کی آواز سنی گئی، جس کے باعث پورا سٹاف موجود تھا۔ کل رات مجموعی طور پر 35 افراد کو ہسپتال لایا گیا، جن میں ایک بچہ پہلے ہی جاں بحق تھا اور 8 افراد کی حالت تشویش ناک تھی۔ انہیں باچا خان ہسپتال شاہ منصور منتقل کیا گیا، جبکہ باقی زخمیوں کا علاج جاری ہے۔
پولیس اسٹیشن میں موجود ایک قیدی فرزند علی، جو کہ اس وقت حوالات میں تھا، نے بتایا کہ وہ لوگ حوالات کے اندر بیٹھے تھے جب اچانک آگ لگ گئی۔ تھوڑی دیر بعد دھماکہ ہوا اور وہ بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی کونسل کے رکن اور صوابی ایکشن کمیٹی کے رابطہ سیکرٹری عظیم خان یوسفزئی نے اس واقعے کو دہشت گردی کا عمل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ اسے شارٹ سرکٹ سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ پولیس اسٹیشنوں میں بارودی مواد کی موجودگی خطرناک ہے۔ انہوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کرے اور مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے اقدامات کرے۔
پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے سوشل میڈیا پر صوابی پولیس سٹیشن دھماکے کے بارے میں لکھا ہے کہ “چند مہینے پہلے سوات میں پولیس سنٹر میں دھماکہ ہوا تو کہا گیا کہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے دھماکہ ہوا، کل صوابی میں دھماکے کو بھی کچھ اس طرح یاد کیا گیا، عجیب اتفاق ہے کہ یہ شارٹ سرکٹ صرف خیبرپختونخوا کے پولیس دفاتر میں ہوتے ہیں”. انہوں مزید لکھا ہے کہ “ہم یہ نہیں کہتے کہ باقی علاقوں میں بھی ایسے واقعات ہو مگر صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ شارٹ سرکٹ کے واقعات صرف خیبر پختونخوا میں کیوں ہو رہے ہیں؟ یس سب ایک پالیسی کے تحت ہو رہی ہے”.
یاد رہے کہ 25 اپریل 2023 کو کبل سوات میں سی ٹی ڈی کے تھانے میں بھی اسی نوعیت کا دھماکہ ہوا تھا، جس میں 18 افراد جان بحق اور 57 زخمی ہوئے تھے۔
دوسری جانب صوابی پولیس سٹیشن میں بارودی مواد کے دھماکے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی ہے. سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چلنے والے خبروں سے یہ معلومات سامنے آئی ہے صوابی میں ہونے دھماکے کی ذمہ تحریک طالبان پاکستان نے اپنے سر لے لی ہے.