مردان میں دردناک واقعہ: حکومتی ایکشن، ملزم کی گرفتاری اور متاثرہ بچے کی فوری مدد کے احکامات
تحریر: عمران ٹکر
مردان (تحصیل رستم) کے علاقے کوترپان میں ایک انسانیت سوز واقعے نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے جہاں ایک 16 سالہ نوجوان پر بدترین تشدد کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ ہمارے سماجی نظام میں موجود شدید خامیوں کو اجاگر کرتا ہے، جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تفصیلات کے مطابق نوجوان (خ) مدرسے جا رہا تھا جب ایک نقاب پوش شخص نے پستول دکھا کر اسے روکا اور اس کی تلاشی لی۔ جب حملہ آور کو نوجوان کی جیب میں پیسے نہ ملے تو اس نے وحشیانہ طریقے سے بلیڈ سے نوجوان کی زبان کاٹ دی۔ زخمی بچے کو فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کا علاج جاری ہے۔
ابتداء میں پولیس نے اس واقعے کو معمولی نوعیت کا قرار دے کر صرف روزنامچہ درج کیا تاہم بعد میں عوامی اور حکومتی دباؤ کے بعد باقاعدہ ایف آئی آر درج کی گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کی شناخت اور گرفتاری کے لیے تحقیقات جاری ہیں مگر تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
اس واقعے پر مشیر صحت احتشام علی نے فوری نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی او مردان کو ملزم کی جلد گرفتاری اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا “قانون کی موجودگی میں ایسی بربریت کسی صورت قابل قبول نہیں ہمیں مجرموں کو فوراً گرفتار کر کے سخت سزا دینی چاہیے تاکہ عوام کا قانون پر اعتماد بحال ہو۔”
مزید برآں مشیر صحت نے مردان میڈیکل کمپلیکس کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ متاثرہ بچے کو فوری اور بہترین طبی امداد فراہم کی جائے تاکہ اس کی صحت جلد از جلد بحال ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کے سدباب کے لیے حکومت کو مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ واقعہ پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑا چکا ہے اور عوامی سطح پر اس واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے۔ اس واقعے نے ہمارے معاشرے میں امن و امان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے درندہ صفت عناصر کو جلد از جلد کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔
یہ واقعہ قانون کی کمزوری اور سماجی ناانصافی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر سخت قوانین کا نفاذ کرے، خاص طور پر بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے، اور عوام کو احساس دلائے کہ قانون ان کی حفاظت کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ، معاشرتی بیداری اور شعور اجاگر کرنا بھی لازمی ہے تاکہ لوگ ایسے واقعات کے خلاف آواز اٹھائیں اور مجرموں کو قانون کے شکنجے میں لایا جا سکے۔