نوجوانوں میں منشیات کی بڑھتی ہوئی لت: ایک سنگین مسئلہ
تحریر: عمران ٹکر
نشہ ایک ایسی حالت ہے جس میں کوئی فرد کسی مخصوص شے، جیسے کہ منشیات، شراب، یا کسی اور نشہ آور مواد کے استعمال کا عادی بن جاتا ہے اور اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نشے کی لت جسمانی، ذہنی اور سماجی پہلوؤں پر مشتمل ہوتی ہے۔
لوگ عام طور پر ذہنی دباو اور پریشانی، سماجی اثرات، خاندانی مسائل جبکہ کچھ لوگ جسمانی تکالیف سے نجات پانے کے لیے بھی نشہ کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ اوقات میں لوگ علاج یا ادویات کا غلط استعمال کرتے ہیں اور ان میں نشے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں نوجوانوں میں منشیات کی لت ایک سنگین اور تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ بن چکا ہے۔ خیبرپختونخوا اور دیگر علاقوں میں اس مسئلے کی شدت مزید بڑھتی جا رہی ہے، جس کے باعث نوجوان نسل کی صحت، تعلیم اور مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ منشیات کی دستیابی اور اس کا استعمال ایک قومی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
یار محمد شاہین، پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن کے مطابق بد قسمتی سے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں نشہ آور اشیاء کی خرید وفروخت اور رسائی کوئی نئی بات نہیں۔
انھوں نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ نشہ آور اشیاء تک رسائی اب زیادہ تر نوجوان العمر بلخصوص طلباء اور طالبات کو ٹارگٹ اور متاثر کر رہی ہیں۔
پچھلے مہینے، نشے کی عادی 20 سالہ لڑکی کی خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے حدود میں نشاندہی ہوئی، جو کہ نشے کی لت میں مبتلا ہوکر مرد ہیرونچیوں کے ساتھ گھوم رہی تھی، جسکی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اس خبر پر کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود نے نوٹس لیا جبکہ ڈی پی او خیبر سلیم کلاچی کی سربراہی میں خصوصی ٹیم نے ضلعی انتظامیہ اور محکمہ سوشل ویلفیئر کی مدد سے 20 سالہ لڑکی کو تحویل میں لے کر الخدمت بحالی مرکز نشتر آباد پشاور منتقل کر دیا۔ جہاں الخدمت ویلفیئر فاؤنڈیشن ہسپتال کے انتظامیہ نے لڑکی کے مفت علاج کی فراہمی کا بیڑا اٹھایا اور علاج مکمل ہونے کے بعد اپنے خاندان والوں کے حوالہ کیا۔
شاہین کے مطابق مذکورہ نشئی لڑکی کی نشاندہی اور بحالی پہلا کیس نہیں ہے۔ اسی طرح پچھلے سال بھی انہوں نے ایک نوجوان العمر نشئی لڑکی کو سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے توسط سے ایک نجی بحالی مرکز میں داخل کیا تھا جس کے ساتھ اسکول جانے کی عمر کا بچہ بھی تھا جبکہ شوہر سے طلاق ہوئی تھی۔ بچے کو ایک مقامی اسکول میں داخل کرایا گیا جبکہ لڑکی صحت یاب اور بحال ہونے کے بعد بیاہ دی گئی اور اب اپنے شوہر کے ساتھ نشے کی لعنت سے پاک خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے۔
شاہین نے مزید بتایا کہ نشئی مرد و خواتین کی اکثر ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کی جاتی ہیں جو کہ اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔ اکثر جن کی ویڈیوز اور تصاویر نشے کی حالت میں وائرل ہوتی ہیں، انہیں بحالی مراکز لے جاکر صحت یاب بھی کر دیا جائے تو ان کے خاندان اور معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتے۔
شاہین مزید بتاتے ہیں کہ نشئی افراد انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی بیوی بچے اور خاندان کے دیگر افراد بھیک مانگتے ہیں، لوگوں کے گھروں یا دیگر جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں لوگ ان کا طرح طرح کا استحصال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نشے کے خاتمہ کے لئے معاشرہ، میڈیا، سول سوسائٹی اور حکومت کو ایمرجنسی بنیادوں پر کام کرنا چاہئے ورنہ مستقبل میں یہ ہمارے نوجوان طبقے کو مکمل طور پر لپیٹ میں لینے کا خطرہ ہے جس کا تدارک، علاج اور بحالی پھر ناممکن ہو جائے گی۔
فدا جان، جو ایک اور مقامی سماجی کارکن ہیں اور نشے کے عادی افراد کی بحالی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، نے بتایا کہ نشہ عام بیماری سے مختلف ہے جس کے تین پہلو ہیں: جسمانی، ذہنی اور سماجی۔ جبکہ ہم نشے کی لت ہونے سے پہلے تدارک یا روک تھام (Prevention) جو لت ہونے سے پہلے اور علاج کے بعد بحالی کا ایک اہم سماجی پہلو ہے، بلکل نظر انداز کرتے ہیں۔ نشے کے عادی مریض کا بدنی لحاظ سے اور کسی حد تک وقتی طور پر ذہنی علاج تو کر دیتے ہیں لیکن سماجی علاج کو توجہ نہیں دیتے جبکہ بدنی علاج، جسے detoxification کہتے ہیں، بحالی یا علاج کا ایک بہت چھوٹا سا جزو ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک دائمی نشئی کی بحالی اور اصلاح 15 سے 20 دن کا کام نہیں، دائمی مریضوں کا کم از کم 3 سے 4 مہینے مکمل علاج اور انتہائی نگہداشت بہت ضروری ہے۔ دائمی نشے کے مریض کا 15 سے 20 دن علاج کے بعد خاندان اور معاشرے میں بھیجنا بہت مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ اور جب اس کا خاندان یا معاشرے میں نشہ کرنے والے لوگ بھی موجود ہوں اور نشہ آور اشیاء بھی آسانی سے دستیاب ہوں تو ایسا مریض کبھی بھی مکمل صحت یاب نہیں ہو سکتا اور دوبارہ نشہ شروع کر دیتا ہے۔
فدا جان صاحب نے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے تدارک یعنی روک تھام (Prevention) پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ کوئی نشے کی طرف جائے ہی نہیں۔ پھر بھی اگر کوئی خدانخواستہ نشے کا عادی بن جائے تو سب سے زیادہ توجہ بحالی کے ذہنی اور سماجی پہلو پر دینی چاہئے تاکہ علاج کے بعد سماج میں اس کو ایڈجسٹ کیا جائے۔ خاندان اور معاشرہ اس سے پیار و محبت سے پیش آئیں نہ کہ نفرت اور پہلو تہی کریں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ دوبارہ نشے کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس لئے بدنی علاج کے ساتھ ساتھ زیادہ توجہ ذہنی اور سماجی پہلو پر دینی چاہئے۔
فدا جان صاحب نے مزید کہا کہ نشے سے بحالی لمبے عرصے کا صبر آزما عمل ہے کیونکہ مریض کسی بھی وقت دوبارہ نشہ شروع کر سکتا ہے۔ بحالی یا علاج کے دوران اور بعد میں خاندان، معالج، معاشرہ اور تنظیم کی طرف سے مکمل نگرانی اور پیروی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
2012 اور 2013 میں، UNODC نے منشیات کے کنٹرول کی وزارت، امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو آف انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لاء انفورسمنٹ افیئرز (INL) اور دیگر قومی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر منشیات کے استعمال کے بارے میں ایک قومی سروے کیا تاکہ اس کی حد اور نمونوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔
پاکستان میں منشیات کے استعمال سروے کے مجموعی نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ تقریباً 6 فیصد آبادی یعنی 9 فیصد بالغ مرد آبادی اور 2.9 فیصد بالغ خواتین نے، جو کہ 6.7 ملین افراد کے برابر ہے، نے پچھلے سال شراب اور تمباکو کے علاوہ کوئی اور نشہ آور شے استعمال کی تھی۔
اس سال ورلڈ ڈرگ رپورٹ 2022 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2020 میں دنیا بھر میں 284 ملین افراد نے منشیات کا استعمال کیا تھا۔ جبکہ بھنگ اب تک دنیا کی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی نشہ سامنے آیا ہے۔ عالمی سطح پر، رپورٹ کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ مطالعہ کی مدت کے دوران دنیا بھر میں 11.2 ملین افراد نے منشیات کا انجیکشن لگایا۔ اس تعداد میں سے نصف کے قریب ہیپاٹائٹس سی اور 1.4 ملین ایچ آئی وی مثبت پائے گئے۔
پچھلے سال، نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد اعظم خان (مرحوم) نے صوبہ بھر میں انسداد منشیات مہم کا آغاز کیا جس کے تحت خیبر پختونخوا کو منشیات سے پاک بنانے کی کوششوں پر زور دیا۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ صاحب نے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی 6.7 ملین آبادی منشیات کی عادی ہے، جن میں 22 فیصد خواتین شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا کی 11 فیصد آبادی منشیات کی لت میں مبتلا ہے جبکہ نوجوانوں میں منشیات کے اشتعال کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے آنے والی نسلوں کو منشیات کی لت سے بچانے کے لیے سخت مہم چلانے پر زور دیا۔
الغرض، نوجوانوں میں منشیات کی لت کا بڑھتا ہوا رجحان نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ نوجوانوں کی زندگیوں کو بچانے اور انہیں معاشرتی دھارے میں واپس لانے کے لیے ہر سطح پر تمام شراکت داروں کو ملکر فوری اور مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
حکومت، سماجی تنظیموں، تعلیمی اداروں، میڈیا اور خاندانوں کو مشترکہ طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔ روک تھام کے اقدامات، مناسب علاج اور بحالی کے پروگرامز کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور اجاگر کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنی آنے والی نسلوں کو منشیات کی لعنت سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور ایک صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
عمران ٹکر
عمران ٹکر خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن کے ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کے رکن ہیں اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی صوبائی مشاورتی کمیٹی، خیبر پختونخوا حکومت کی پیرول کمیٹی، اور آواز دو صوبائی فورم میں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے 8 چائلڈ پروٹیکشن کورٹس کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا اور خیبر پختونخوا چائلڈ رائٹس موومنٹ (سی آر ایم) اور ایواجی کے فعال رکن ہیں۔ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے، وہ پالیسی کی سطح پر تبدیلی اور شعور و بیداری میں مصروف ہیں۔ عمران اخبارات اور ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں اور بچوں کے حقوق کے فعال کارکن کے طور پر مدعو کیے جاتے ہیں۔ 2023 میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے انہیں ایچ بی ایل پی ایس ایل ہمارے ہیرو ایوارڈ کے لیے نامزد کیا۔