ٹی ٹی پی کی غزہ امداد اور فلوٹیلا پر ردِعمل: بیانیہ، مقاصد اور خطے کی صورتحال

ٹی ٹی پی کی غزہ امداد اور فلوٹیلا پر ردِعمل: بیانیہ، مقاصد اور خطے کی صورتحال

تجزیہ: عمر فاروق

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ غزہ کے مسلمانوں کے لیے تین ہزار ڈالر امداد فراہم کرے گی اور ساتھ ہی “گلوبل صمود فلوٹیلا” پر اسرائیلی ڈرون حملوں کی مذمت بھی کی۔ بظاہر یہ اقدامات انسانی ہمدردی اور فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں، مگر ان کے پسِ منظر میں تنظیم کے اپنے سیاسی اور نظریاتی مقاصد پوشیدہ ہیں۔

ٹی ٹی پی اپنی محدود مالی حیثیت کے باوجود امداد کا اعلان کرکے یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کے دکھ درد میں شریک ہے۔ اسی طرح فلوٹیلا پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور “حقیقی مسلم قیادت” کی ضرورت پر زور دینا اس بیانیے کو مضبوط بنانے کی کوشش ہے کہ تنظیم بین الاقوامی معاملات میں بھی ایک فعال فریق ہے۔

لیکن ایک عسکریت پسند تنظیم کا خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کی حیثیت سے پیش کرنا بذات خود ایک مشکوک عمل ہے، کیونکہ پاکستانی سیکیورٹی ادارے بارہا یہ موقف دہرا چکے ہیں کہ ٹی ٹی پی افغانستان سے پاکستان کے خلاف جارحیت کرتی ہے اور اس کے القاعدہ سے روابط ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹس میں بھی یہی مؤقف بیان کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کو فنڈنگ اور تربیت القاعدہ کے نیٹ ورکس سے ملتی ہے۔ اس کے باوجود تنظیم مسلسل ان الزامات کی تردید کرتی ہے اور خود کو “پاکستانی تنظیم” کے طور پر پیش کرنے پر اصرار کرتی ہے۔

حالیہ خطے کے حالات بھی ٹی ٹی پی کے بیانیے پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ مئی 2025 کی پاک–بھارت جنگ میں پاکستان نے نہ صرف بھارت کو مؤثر جواب دیا بلکہ مسلم دنیا میں اپنا ایک فعال اور ذمہ دار کردار بھی منوایا۔ اسی دوران اسرائیل نے غزہ کے علاوہ قطر، ایران اور لبنان پر بھی حملے کیے، جس کے بعد عرب ممالک نے اپنی سلامتی کے لیے پاکستان کو ایک اہم شراکت دار کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ سعودی عرب، قطر، اردن اور دیگر ممالک کھلے عام پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کو اپنی دفاعی ضرورت کا لازمی حصہ قرار دینے لگے۔

ایسے میں ٹی ٹی پی کا پرانا بیانیہ — کہ “پاکستانی فوج امریکی مفادات کی غلام ہے” — کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خطے میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے کردار نے اس بیانیے کو مزید نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ مسلم دنیا اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں پاکستان کو ایک “ڈفینس لائن” کے طور پر دیکھنے لگی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ٹی ٹی پی غزہ امداد اور فلوٹیلا پر بیانات کے ذریعے اپنے لیے نئی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ مقامی سطح پر اپنی بقا کے لیے عوامی ہمدردی حاصل کرسکے اور عالمی سطح پر خود کو “انسانی ہمدردی کرنے والی تنظیم” کے طور پر پیش کرسکے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی ٹی پی کے یہ اقدامات تین بڑے مقاصد کے گرد گھومتے ہیں:

  1. پاکستانی عوام میں اپنی مقبولیت قائم رکھنے کے لیے خود کو امت مسلمہ کا ترجمان ظاہر کرنا۔
  2. عالمی دنیا، خاص طور پر عرب ممالک کے سامنے ایک مثبت تاثر ابھارنا تاکہ اسے نظرانداز نہ کیا جائے۔
  3. پاکستان کی ریاستی پالیسیوں پر تنقید کرکے ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا۔

بیانیہ کی یہ جنگ اس وقت مزید اہم ہو جاتی ہے جب خطے میں پاکستان کے کردار کو پذیرائی مل رہی ہے۔ جہاں پاکستانی ریاست کے مؤقف کو تقویت مل رہی ہے، وہیں ٹی ٹی پی کا بیانیہ کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تنظیم بیانات، امدادی دعوؤں اور عالمی معاملات پر ردِعمل کے ذریعے اپنی موجودگی قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ غزہ کے عوام سے ہمدردی اور انسانی امداد کی ضرورت ایک حقیقت ہے، لیکن جب ایسی سرگرمیوں کو عسکری تنظیمیں اپنی بقا اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں تو اس کے پیچھے کے محرکات پر سوال اٹھانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی ریاستی پالیسی اور خطے میں اس کے ابھرتے کردار کے باعث ٹی ٹی پی کا بیانیہ بتدریج اپنی طاقت کھوتا جا رہا ہے، اور یہ صورتِ حال مستقبل میں پاکستان کے لیے زیادہ مستحکم اور پرامن فضا کی نوید ہے۔

عمر فاروق
متعلقہ پوسٹ

عمر فاروق وائس اف امریکہ اردو سروس، فرینٹئر پوسٹ، اردو نیوز اور دیگر قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ گزشتہ 11 سال سے صحافتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں وہ خیبر پختون خواہ میں انویسٹیگیٹو اور ملٹی میڈیا جرنلزم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے