پی ٹی آئی کارکنوں کے ہاتھوں صحافی طیب بلوچ پر تشدد، نیشنل پریس کلب کے باہر صحافیوں کا احتجاج۔

پی ٹی آئی کارکنوں کے ہاتھوں صحافی طیب بلوچ پر تشدد، نیشنل پریس کلب کے باہر صحافیوں کا احتجاج۔


پی ایف یو جے اور آر آئی یو جے کی کال پر مظاہرہ، وکلاء اور سول سوسائٹی کی بھی شرکت, مقررین کا کہنا تھا کہ صحافت پر بڑھتے حملے آزادی اظہار اور عوام کے حقِ معلومات پر براہِ راست حملہ ہیں، پی ٹی آئی قیادت صحافی پر حملے کی ذمہ داری قبول کرے۔


رپورٹ: محمد باسط خان


اسلام آباد: نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) اور راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (RIUJ) کے زیر اہتمام صحافی طیب بلوچ پر تشدد کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاج میں بڑی تعداد میں صحافیوں، وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی اور اس واقعے کی شدید مذمت کی۔


یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب گزشتہ روز اڈیالہ جیل کے باہر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں نے صحافی طیب بلوچ پر حملہ کیا۔ حملے کے دوران نہ صرف انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ دیگر صحافیوں کے ساتھ بھی بدسلوکی اور دھکے بازی کے واقعات پیش آئے۔ اس واقعے کو صحافی برادری نے ا آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا۔

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ، نیشنل پریس کلب کے صدر اظہر جتوئی، اور سینیئر صحافی طارق چوہدری سمیت متعدد رہنماؤں نے کہا کہ ملک میں صحافت پر حملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور حکومت سمیت سیاسی جماعتیں اس رجحان کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔

افضل بٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کے لیے رول ماڈل ہوتی ہیں۔ اگر قیادت خود تشدد اور عدم برداشت کا رویہ اپنائے گی تو کارکن بھی اسی روش پر چلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا طیب بلوچ پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان کو برداشت اور مکالمے کی تربیت دینے میں ناکام رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو فوری طور پر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور متاثرہ صحافی سے معافی مانگنی چاہیے، بصورت دیگر صحافتی تنظیمیں احتجاج کا دائرہ ملک بھر میں وسیع کر دیں گی۔


نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدر اظہر جتوئی نے کہا کہ ملک میں صحافیوں پر بڑھتے حملے نہ صرف میڈیا کے لیے بلکہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ ان کے مطابق صحافیوں پر تشدد کے واقعات دراصل عوام کے جاننے کے حق پر حملہ ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر ایسے اقدامات کرے جن سے صحافیوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن ہو۔


سینیئر صحافی طارق چوہدری نے کہا کہ طیب بلوچ کو تشدد کا نشانہ بنانے سے قبل انہیں سوشل میڈیا پر بھی ہراساں کیا جا رہا تھا۔ ان کے مطابق یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ جب سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو ایسے رویوں پر روکنے کے بجائے خاموش تائید فراہم کرتی ہیں تو اس کے نتیجے میں صحافیوں کے خلاف پرتشدد واقعات بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہتھکنڈے آزادی اظہار رائے اور صحافت کی آزادی کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں۔


احتجاج میں شریک دیگر صحافیوں اور وکلاء نے کہا کہ صحافت پر حملے دراصل جمہوریت اور عوامی مفاد پر حملے ہیں۔ اگر صحافیوں کو خبر دینے اور سوال اٹھانے پر سزا دی جائے گی تو یہ براہ راست عوام کے حقِ معلومات کو متاثر کرے گا۔ مقررین نے حکومت اور سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف فوری قانونی کارروائی کریں اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لائیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی ہو۔


پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ صحافی طیب بلوچ پر تشدد کی ذمہ داری براہِ راست پاکستان تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے۔ یونین نے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت نہ صرف معافی مانگے بلکہ یہ بھی یقین دہانی کرائے کہ آئندہ ان کے کارکن کسی صحافی کے خلاف تشدد میں ملوث نہیں ہوں گے۔ بصورت دیگر، یونین نے خبردار کیا کہ ملک بھر میں احتجاج کی نئی لہر شروع کی جائے گی۔


احتجاج میں شریک صحافیوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ آزادی صحافت کے تحفظ کے لیے ہر محاذ پر متحد رہیں گے اور کسی بھی دباؤ یا تشدد کے سامنے جھکیں گے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافت جمہوریت کی بنیاد ہے اور اس پر حملے کسی بھی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے۔

Muhammad Basit Khan
متعلقہ پوسٹ

محمد باسط خان خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد بیسڈ ایک صحافی ہیں جو کرائم، ماحولیات اور انسانی حقوق جیسے اہم موضوعات پر لکھتے ہیں۔ وہ مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں سے بھی وابستہ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے