پاکستان میں زیر تعلیم افغان طلبہ کو جو یونیورسٹیوں اور کالجز میں زیر تعلیم ہے چار سے پانچ سال کا وقت دیا جائے تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کریں۔ جمیل صافی

پشاور: افغانستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان میں زیر زیر تعلیم طلبہ نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیز اور کالجز میں زیر تعلیم طلباء کو تعلیم مکمل ہونے تک پاکستان سے جبری نہ نکالا جائے اور انہیں پاکستان میں رہنے کے لیے پانچ سال کی مزید مہلت دی جائے ۔

ان خیالات کا اظہار افغانستان سے تعلق رکھنے والے خیبر پختون خوا میں زیر تعلیم  طلباء جن میں نقیب اللہ ایوبی، اسد اللہ صافی، عنایت اللہ مو مند، ارشاد اللہ شیرازی، جمیل صافی اور دیگر درجنوں طلبہ شامل ہیں نے افغان خاتون صحافی مسکا صافی کہ ہمراہ پشاور پریس کلب میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے انتہائی مشکور ہیں کہ جس نے 40 سال تک افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی اور یہاں پر ان کے خاندان پلے بڑھے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے اچانک ایک فیصلہ سامنے ایا جس میں کہا گیا کہ افغان مہاجرین 30 اگست تک پاکستان خالی کر دیں اور افغانستان چلے جائیں جو سراسر نا انصافی ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کہ اس فیصلے سے پاکستان کی مختلف یونیورسٹیز اور کالجز میں زیر تعلیم طلبہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور ان کے خاندان بھی اس وقت پریشانی میں مبتلا ہے۔

پریس کانفرنس سے افغان صحافی مسکا صافی نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ ہم ہم افغانستان جانا چاہتے ہیں اور یہ ہماری خواہش بھی ہے لیکن افغانستان اس وقت ایک حکومت ہونے کے باوجود تباحالی کا شکار ہے کیونکہ ائے روز دیکھنے اور سننے میں ارہا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے بیوٹی پارلرز اور دیگر کاروبار پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اس تک کے وہ گھروں میں اپنا پیٹ پالنے کے لیے جو کام کر رہی ہیں اس پر بھی پابندی لگائی گئی ہے افغانستان میں اس وقت کوئی مستند اور تعلیمی نظام موجود نہیں ہے جبکہ افغانستان میں بے روزگاری ہے اور ڈنڈے کا قانون ہے انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے افغان مہاجرین کی بے دخلی کے نوٹس پر نظر ثانی کریں اور افغان طلبہ کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچائیں.

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں پیدا ہوئے اور پاکستان میں ہم نے اپنے تعلیمی سفر کا اغاز کیا جو جاری ہے جس سے یہ سفر راستے میں روکنا ایسا ہے کہ ہم افغانستان جا کر دوبارہ نئے سرے سے اپنی زندگی کا اغاز کریں گے جو بہت مشکل ہے انہوں نے کہا کہ افغان حکومت پاکستانی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر بات کرے اور ہمارا مستقبل تاریک ہونے سے بچائیں کیونکہ یہ صرف طلبہ کا مسئلہ نہیں یہ طلبہ کے ساتھ جڑے ان کے خاندانوں کا بھی مسئلہ ہے جو اس وقت شدید پریشانی میں مبتلا ہیں.

انہوں نے کہا کہ یو این ایچ سی ار بھی اپنا کردار ادا کرے اور پاکستان میں موجود افغان کونسل گیری بھی اپنا کردار ادا کرے کیونکہ ہمیں ہر طرف سے خاموشی نظر ارہی ہے کوئی بھی افغان مہاجرین اور طلبہ کے لیے اواز بلند نہیں کر رہا۔ اخر میں مسکا صافی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ جبری بے دخلی کے فیصلے پر نظر ثانی کرے کیونکہ اس وقت جو افغانستان جانے کی تیاری کر رہے ہیں وہ اپنی 40 سالہ زندگی کی جمع پونجی کوڑیوں کے مول بیچ رہے ہیں اور خریدار لائن پر کھڑے ہیں۔

لہذا پاکستانی عوام سے درخواست ہے کہ وہ اس موقع کا فائدہ نہ اٹھائیں اور افغان عوام کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ان کو ان کی جمع پونجی کا یعنی جو ان کی مکانات اور کاروبار ہیں کا صحیح معاوضہ ادا کریں ان کی مہربانی ہوگی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیگر طلباء نے کہا کہ اس وقت افغانستان جانا خودکشی کے برابر ہے کیونکہ وہاں پہ حکومت ہے لیکن عوام کے حقوق نہیں ہیں اور پوری دنیا کو معلوم ہے کہ افغانستان کے کیا حالات ہیں۔ اور یو این ایچ سی ار بھی افغانستان جانے والوں کو ایک ہزار ڈالر دے کیونکہ 35 ڈالر دینا کہاں کا انصاف ہے 35 ڈالر تو کوئی معانی نہیں رکھتا۔ اور جو افغانستان جا رہے ہیں وہاں پہ ان کے رہنے کا کوئی انتظام نہیں لہذا ہماری افغان اسلامک امارات سے درخواست ہے کہ وہاں پر پاکستان سے جانے والے افغانوں کو زمین فراہم کی جائیں تاکہ وہاں پہ وہ اپنا گھر تعمیر کریں اور افغان عوام کو بے یار و مددگار نہ چھوڑے اور ان کو ان کے حقوق دیے جائیں کیونکہ وہ افغانستان کے باشندے ہیں اور پاکستان میں صرف مہمانوں کے طور پر رہ کر واپس جا رہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے