” نو مئی واقعات کو کور کرنے کی وجہ سے میرا صحافتی کیریئر بری طرح متاثر ہوا

” نو مئی واقعات کو کور کرنے کی وجہ سے میرا صحافتی کیریئر بری طرح متاثر ہوا

مصباح الدین اتمانی

“جب صحافت جرم بن جائے، تو سچ بولنا سب سے بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔ باجوڑ کے صحافی رحمان ولی احساس کے لیے 9 مئی 2023 صرف ایک تاریخ نہیں، بلکہ اُن کے بکھرتے ہوئے خوابوں، بگڑتے ہوئے حالات، اور ایک پُرامن زندگی کے اختتام کا آغاز ہے۔ جنہوں نے قلم کو آواز بنایا، اُنہیں غدار کہہ کر مقدمات میں الجھا دیا گیا۔ گھر پر چھاپے، عدالتوں کے چکر، اور جان سے مارنے کی دھمکیاں — یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ وہ اپنا کام کر رہے تھے۔ آج وہ اپنے آبائی علاقے سے دور، اسلام آباد میں پناہ لینے پر مجبور ہیں، اور ان کا صحافتی کیریئر، جو کبھی عزم اور جذبے کی علامت تھا، اب خطرات اور مایوسی کی ایک تلخ داستان بن چکا ہے۔

ضلع باجوڑ کے رحمان ولی احساس بھی اُن ہی صحافیوں میں شامل ہیں جنہوں نے صرف اپنا پیشہ نبھایا، لیکن اس کی قیمت اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنے امن سے چکائی۔ 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد 10 مئی 2023 کو ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ اس ایف آئی آر میں غداری، اشتعال انگیزی اور دیگر سنگین الزامات کے ساتھ دفعہ 134 بھی شامل کی گئی — وہی دفعہ جو ریاست کے خلاف بغاوت پر لگتی ہے اور جس کی سزا عمر قید ہے۔

الزام یہ تھا کہ انہوں نے 9 مئی کو باجوڑ کے علاقے عنایت کلی سکاوٹ کے قریب ایک احتجاج میں شرکت کی، لیکن رحمان ولی احساس کا مؤقف واضح ہے: وہ اُس روز اپنے گھر پر موجود تھے اور کسی سیاسی جماعت کے احتجاج میں شامل نہیں ہوئے۔

ایف آئی آر کے اندراج، پولیس چھاپوں اور مسلسل ہراسانی کے بعد وہ مجبور ہو گئے کہ وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ہو جائیں۔ ایک صحافی جو روز سچ کے لیے لوگوں کی آواز بنتا تھا، آج خود اپنی سچائی کے لیے دربدر ہے۔

رحمان ولی احساس نے  بی ایس جرنلزم (صحافت) کیا ہے اور 92 نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر کام کر رہے ہیں۔ وہ پچھلے 8 سال سے اس فیلڈ سے منسلک ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 9 مئی کے بعد بطور رپورٹر باجوڑ کے مختلف علاقوں سے کوریج کر رہے تھے جس کے بعد انکے خلاف ایف ائی آر درج کی گئی جس میں دیگر دفعات کے ساتھ  غداری کا دفعہ بھی شامل تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایف آئی آر 20 مئی کو سامنے آئی جس پر 10 مئی کی تاریخ درج تھی۔

 “میں نے عدالت سے رجوع کیا، مجھے ضمانت قبل از گرفتاری ملی، اس کی تاریخ آج تک چل رہی ہے”  رحمان ولی احساس نے بتایا۔

وقت کے ساتھ مشکلات بڑھ گئی، 20 مئی کو میرے گھر پر چھاپہ مارا گیا، 12 گاڑیاں تھی، مختلف اداروں کے لوگ تھے، میرا بڑا بھائی جو پیشے کے لحاظ سے استاد ہے اس کو اٹھایا گیا، میں عدالت میں حاضری دیتا تھا، میں نے ضلعی انتظامیہ کے خلاف عدالت میں درخواست دی۔ اس سلسلے میں باجوڑ یونین اف جرنسلٹس کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر گیا وہاں سے مجھے اٹھایا گیا،  اور مجھے دھمکیاں دینا شروع کی کہ آپ اپنی رپورٹنگ میں احتیاط کریں ورنہ آپ کی مشکلات اور بھی بڑھ جائیں گی، ان سب باتوں کی وجہ سے میرا صحافتی کریئر بری طرح متاثر ہوا۔

ایف ائی آر کیوں درج ہوئی؟

رحمان ولی احساس نے بتایا انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ریحان زیب خان کو کوریج دی تھی  اور 9 مئی کے بعد واقعات کو رپورٹ کیا جو ایک صحافی کی ذمہ داری ہے جس پر انکو  پاکستان تحریک انصاف کا حامی قرار دیکر ایف آئی آر میں نامزد کیا۔ رحمان ولی احساس نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ریحان زیب خان کو عام انتخابات سے قبل کوریج دی تھی۔ بعد ازاں 9 مئی کے واقعات کی صحافتی طور پر رپورٹنگ کی، جو ان کے فرائض کا حصہ تھی، لیکن اسی وجہ سے ان پر پی ٹی آئی کا حامی ہونے کا الزام لگا کر ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا۔

رحمان ولی احساس نے بتایا کہ حساس اداروں کے اہلکار انہیں دھمکیاں دیتے تھے کہ آپ صرف وہ رپورٹ کریں گے جو ہم دیتے ہیں، جس کے بعد مسائل مزید بڑھ گئے۔ یہ رویہ 9 مئی سے پہلے بھی جاری تھا، لیکن 9 مئی کے بعد حالات مزید سنگین ہو گئے۔

احساس کے مطابق ان کے  خاندان کو ہراساں کیا گیا، گھر پر کئی چھاہے مارے، میرے بڑی بھائی کو اٹھایا گیا، مجھے حبس بے جاں میں رکھا گیا جس کے بعد  زندگی سخت ہو گئی اور میں مجبورا اسلام آباد منتقل ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ باجوڑ چھوڑنے کے دو وجوہات تھے ایک تو ان حالات کے بعد معاشی مسائل پیدا ہوئے، دوسری بات یہ مجھے نامعلوم افراد کی طرف سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ کیس ابھی بھی چل رہا ہے، مجھے ہر مہینہ عدالت میں پیش ہونا ہوتا ہے، اب تک میں نے 19 حاضریاں لگائی ہیں، رحمان ولی نے بتایا کہ میں نے درخواست دی کہ میں تعلیم کے سلسلے میں باہر جا رہا ہوں لہذا  میرے کیسز کو ختم کیا جائے یا اگر میں ملوث ہو تو سزا دی جائے۔

 پولیس چھاپوں اور غیرقانونی مقدمات کی وجہ سے میرا صحافتی کیرئیر متاثر ہوا، اتنے مسائل پیدا کی گئی کہ میں نے دس مہینے تک  صحافت سے کنارہ کشی اختیار کی، گھر والے کام کرنے نہیں دے رہے تھے کہ صحافت چھوڑ دیں، ” صحافت میرا پیشہ ہے میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟””  رحمان ولی احساس نے بتایا۔

رحمان ولی احساس سال 2016 سے بطور ملٹی میڈیا جرنلست کام کرتے ہیں اور حالیہ وقت میں وہ 92 نیوز اور ٹرئبل نیوز نیٹ ورک کت ساتھ کام کرتے ہیں۔

جب اس حوالے سے ہم نے رحمان ولی احساس کے وکیل  گوہر علی ایڈووکیٹ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ کیس میں 188، 134، 504، 147، 527، 149 کے دفعات شامل ہیں۔ لیکن ان میں سب سے خطرناک دفع 134 ہے جو ریاست کیخلاف اٹھنے والی لوگوں پر لگائی جاتی ہے جس کی سزا عمر قید ہے۔ اس میں ضمانت قبل آزگرفتاری ہو گئی ہے لیکن میرے موکل نے بہت مشکلات کا سامنا کیا۔

صحافیوں میں مشکلات میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟

صحافیوں کی تنظیم خیبریونین آف جرنلسٹس کے صدر کاشف الدین سید سے جب صحافیوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا خیبر پختونخوا میں صحافیوں کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، پہلے ہمارا گلہ تھا کہ دہشتگرد اور انتہاد پسند صحافیوں کو ہراساں کرتے ہیں  ان کو مجبور کرتے ہیں کہ ان کے مرضی کے مطابق خبریں چلائے یا ان کیخلاف خبر نہ چلائے یا یہ گلہ ہم ریاستی اداروں سے کرتے کہ وہ صحافیوں کو تنگ کرتے ہیں لیکن اب نئی صورتحال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں صحافیوں پر تشدد کرتے ہے اور ہم نے دیکھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے نومبر اور مئی کے احتجاج میں میڈیا کے گاڑیوں کو جلایا گیا صحافیوں کو ہراساں کیا گیا ، ان کو مارا گیا۔

 انہوں نے بتایا ہم نے دیکھا کہ پولیس نے بھی صحافیوں پر تشدد کیا اب جو صورتحال ہے اس میں صحافت اور صحافی دونوں مشکلات کا شکار ہے،  ہم سمجھتے ہے کہ میڈیا اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے رپورٹر کو تمام ضروری سہولیات دیں، ہم نے دیکھا کہ لاٹھی چارج اور انسوگیس سے بچنے کے لیے زیادہ تر صحافیوں کے پاس ضروری حفاظتی سامان موجود نہیں تھا۔

دوسری ضروری بات یہ ہے کہ ایسے حالات کے حوالے سے  صحافیوں کو تربیت دینا ضروری ہے کہ سیاسی تنازعات میں صحافی کیسے رپورٹنگ کریں، ان کو یہ بھی تربیت دینی چاہیے کہ ایسے رپورٹنگ کے دوران ڈرافت اور لینگویج کیسا ہونا چاہیے ، ہم اکثر دیکھتے ہے کہ صحافی بھی بھی رپورٹنگ کے دوران ایسا لہجہ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے سیاسی جماعت یا اس کے کارکن یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ جانبداری کر رہا ہے حالانکہ وہ غیرجانبدار ہوتا ہے لیکن اس کا انداز ایسا ہوتا ہے جو معیاری نہیں ہوتا، پہلے تو پرنٹ میڈیا تھا لکھنے کا طریقہ کار تھا لیکن اب الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا زمانہ ہے، لائیو رپورٹنگ کے دوران منظرکشی کے دوران مناسب الفاظ کا چناو ضروری ہے، یہ اداروں کی بھی ذمہ داری ہے اور صحافتی تنظیموں کی بھی ذمہ داری ہے۔ ہم خیبریونین اف جرنلسٹس کے پلیٹ فارم سے یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ ہم صحافیوں کی تربیت کے لیے ورکشاپ منعقد کریں

 کئی دہائیوں سے پاکستان میں میڈیا سینسرشپ ہے

  فریڈم نیٹ ورک کے خیبرپختونخوا کے کوآرڈنیٹر گوہر علی نے بتایا قبائلی اضلاع میں صحافیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا یا ان پر مقدمات درج کرنا یہ صرف 9 مئی سے تعلق نہیں رکھتا، کئی دہائیوں سے پاکستان میں میڈیا سینسرشپ ہے، حکومت مختلف اداروں کے ذریعے اس پر عمل درآمد کرواتی ہے اگر دیکھا جائے تو 9 مئی کے بعد بھی کئی صحافیوں کیخلاف کاروائیاں کی گئی ان پر جھوٹے مقدمات درج کی جاتے ہیں ان کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ حکومت سچ لکھنے اور سچ سننے کو تیار نہیں۔

باجوڑ میں صحافیوں پر درج مقدمات کے حوالے سے باجوڑ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری بلال یاسر نے بتایا کہ یہاں مقتدر قوتیں صحافیوں کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرتے ہیں، رحمان ولی احساس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ پچھلے ایک سال سے عدالتوں میں خوار ہو رہا ہے صرف اس لیے کہ انہوں نے مرضی کی رپورٹنگ کرنے کی کوشش کی تھی.

فریڈم نیٹ ورک کے کوارڈینیٹر گوہر علی کے مطابق صحافی اس وقت مشکلات میں ہے، ہم ان  کی مدد کرتے ہیں، ان کو مالی اور قانونی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس یہ تعداد موجود نہیں کہ اب تک کتنے صحافیوں پر مقدمے درج ہوئے ہیں۔ لیکن کئی مقدمات درج ہوئے ہیں۔ اس نظام میں تعداد جمع کرنا مشکل ہے۔

رحمان ولی احساس کا کیس نہ صرف ایک صحافی کے ذاتی بحران کی داستان ہے بلکہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ پاکستان میں آزاد صحافت کس قدر دباؤ، خطرات اور قانونی پیچیدگیوں کی زد میں ہے۔ صحافیوں پر جھوٹے مقدمات، دھمکیاں، گرفتاری اور معاشی مشکلات نے نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے بلکہ ان کے ذاتی اور خاندانی نظام زندگی کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ وقت اس امر کا متقاضی ہے کہ صحافیوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے، ادارے انہیں پیشہ ورانہ تربیت اور تحفظ دیں، اور رپورٹنگ کو جرم سمجھنے کے بجائے سچائی تک رسائی کا ذریعہ تصور کیا جائے۔ جب تک صحافت آزاد اور محفوظ نہیں ہوگی، ایک جمہوری معاشرہ بھی مکمل نہیں ہو سکتا۔

Misbah Uddin Utmani
متعلقہ پوسٹ

مصباح الدین اتمانی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے، وہ ایک فری لانس جرنلسٹ ہے، زیادہ تر اقلیتی برادری، انسانی حقوق، مرجنلائزڈ کمیونٹیز اور موسمیاتی تغیر کے حوالے سے لکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے