روایتی انصاف یا وفاقی گرفت؟ خیبر پختونخوا میں جرگہ نظام کی بحالی پر سیاسی اور قانونی حلقوں میں تحفظات
عمر فاروق
وزیر اعظم شہباز شریف نے خیبر پختونخوا میں روایتی جرگہ نظام کی بحالی کے لیے ایک 18 رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کا مقصد متبادل نظام انصاف (ADR) کے لیے آئینی و قانونی دائرہ کار میں ایک قابلِ قبول فریم ورک تیار کرنا ہے۔ تاہم، اس فیصلے نے سیاسی، قانونی اور سماجی حلقوں میں شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔
وزیر اعظم آفس سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق، اس کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر برائے امور کشمیر، گلگت بلتستان و سرحدی علاقہ جات انجینئر امیر مقام کریں گے، جب کہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ شریک کنوینر ہوں گے۔ کمیٹی میں متعدد وفاقی وزرا، صوبائی نمائندگان، سابق بیوروکریٹس، سینئر پولیس افسران اور قانونی ماہرین شامل ہیں، جو 45 دن میں اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔
جرگہ: ایک متنازعہ روایت
پشتون روایات میں جرگہ ایک ایسا غیر رسمی نظامِ انصاف رہا ہے جو برادری کے بزرگوں پر مشتمل ہوتا ہے اور دیہی و قبائلی علاقوں میں تنازعات کو افہام و تفہیم سے سلجھاتا ہے۔ تاہم جدید قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان جرگہ نظام پر تنقید کرتے آئے ہیں، کیونکہ ان کے مطابق اس میں شفافیت، غیر جانبداری اور خواتین سمیت دیگر محروم طبقات کی نمائندگی کا شدید فقدان ہے۔
سینیئر صحافی و تجزیہ نگار شمیم شاہد کے مطابق، یہ اقدام درحقیقت معدنی وسائل پر وفاقی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے کہا، “یہ جرگہ کی بحالی نہیں بلکہ مائن اینڈ منرل بل کی ناکامی کے بعد وفاقی حکومت کا متبادل راستہ ہے۔” ان کے مطابق، جرگوں کی تشکیل میں اگر حکومت مالی معاونت فراہم کرے گی تو فیصلے بھی اسی کے حق میں آئیں گے، اور یہ پورے جرگہ سسٹم کی غیر جانبداری کو مشکوک بنا دے گا۔
قانونی اور آئینی سوالات
پشاور ہائی کورٹ کے سینیئر وکیل ایڈووکیٹ اعجاز خان نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں پہلے سے ہی الٹرنیٹو ڈسپیوٹ ریزولوشن ایکٹ 2020 موجود ہے، جو مقامی سطح پر تنازعات کو روایتی طریقوں سے حل کرنے کی گنجائش فراہم کرتا ہے۔ “ایسے میں ایک نیا جرگہ سسٹم متعارف کرانا محض آئینی سسٹم پر عدم اعتماد کا اظہار ہے،” ایڈووکیٹ اعجاز نے کہا۔ ان کے مطابق، اگر عدالتوں کی موجودگی میں ایک متوازی نظام کی ضرورت پیش آ رہی ہے، تو یہ پاکستان کے عدالتی نظام کی ناکامی کا اشارہ ہے۔
انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ جرگہ نظام کے تحت 25ویں آئینی ترمیم کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ قبائلی علاقوں میں دوبارہ غیر رسمی، غیر جمہوری ڈھانچوں کو فعال کیا جا سکے، جن پر ریاستی گرفت مضبوط ہو اور عوامی نمائندہ ادارے بائی پاس ہوں۔
مائن اینڈ منرل بل اور اختیارات کی کشمکش
خیبر پختونخوا کی تمام سیاسی جماعتوں نے حال ہی میں وفاقی حکومت کے مائن اینڈ منرل بل کو متفقہ طور پر مسترد کیا، جس میں صوبے میں معدنیات کی تلاش، لائسنسنگ اور کنٹرول کے اختیارات پر بات کی گئی تھی۔ ناقدین کے مطابق یہ بل دراصل قدرتی وسائل پر صوبائی حقِ ملکیت کو نظر انداز کر کے ان پر وفاقی اجارہ داری قائم کرنے کی ایک کوشش ہے۔
بل میں مقامی کمیونٹی کے حقوق اور تربیت کے وعدے تو کیے گئے ہیں، لیکن یہ واضح نہیں کہ ان کمیونٹیز کو مالی یا انتظامی شراکت داری حاصل ہو گی یا نہیں۔ اسی خلا کو پُر کرنے کے لیے اب جرگہ سسٹم کا سہارا لیا جا رہا ہے، تاکہ زمینوں کے حصول، معدنیات کی لیز اور معاہدوں کو عوامی نمائندوں کے بجائے روایتی نمائندوں کے ذریعے طے کیا جا سکے، جو ممکنہ طور پر وفاقی دباؤ یا مفاد میں فیصلے کر سکیں۔
شدت پسندی اور ریاستی پالیسی میں تضاد؟
سماجی کارکنان اور ماہرین کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں انضمام کے خاتمے اور جرگہ نظام کی بحالی تحریک طالبان پاکستان (TTP) کا ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ ان کے مطابق، جرگہ نظام کے پردے میں ریاست کہیں شدت پسندوں کو خوش کرنے یا ان کے مطالبات پورے کرنے کی راہ پر تو نہیں گامزن؟ اگر ایسا ہے تو یہ دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی سے ایک واضح انحراف ہو گا۔

عمر فاروق
عمر فاروق وائس اف امریکہ اردو سروس، فرینٹئر پوسٹ، اردو نیوز اور دیگر قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ گزشتہ 11 سال سے صحافتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں وہ خیبر پختون خواہ میں انویسٹیگیٹو اور ملٹی میڈیا جرنلزم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں