پرامن معاشرے کیلئے آزاد صحافت بہت ضروری ہے
خالدہ یوسفزئی: سٹوڈنٹ آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن عبدالولی خان یونیورسٹی مردان
خیبر پختونخوا میں صحافیوں، خصوصا خواتین میڈیا کارکنوں ک ی سالمتی خطرے میں — ڈیجیٹل دور نئے چیلنجز لے آیا
پشاور : خیبر پختونخوا میں صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو درپیش خطرات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور
ڈیجیٹل دور میں ان خطرات کی نوعیت بھی بدل گئی ہے۔ خاص طور پر خواتین صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ
فرائض کی انجام دہی مز ید مشکل اور خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔
صوبے میں دہشت گردی، شدت پسندی، س یاس ی دباؤ اور س یکیورٹی اداروں ک ی جانب سے سنسرشپ جیسے عوامل
ہمیشہ سے آزادی صحافت کے لیے رکاوٹ بنے رہے ہیں۔ تاہم، اب سوشل میڈیا اور ڈی جیٹل پلیٹ فارمز کے پھیالؤ
نے نہ صرف معلومات کے ذرائع کو بدال ہے بلکہ صحافیوں کو نئے قسم کے خطرات سے بھی دوچار کر دیا ہے۔
سچ بولنے کی قیمت
خیبر پختونخوا میں گزشتہ چند سالوں کے دوران کئی صحافیوں کو قتل یا زخمی کیا گیا، جن میں نمایاں نام گلشن
علی، محمد یوسف، اور نثار احمد کے ہیں۔ ان صحافیوں نے مختلف نوعیت کے حساس معامالت پر رپورٹنگ کی
تھی، جن میں انتہا پسندی، بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خالف ورز یاں شامل تھیں۔
صحافیوں کی مقامی تنظیموں کے مطابق، متعدد رپورٹرز کو برا ہ راست دھمکیاں، اغوا کی کوشش یں، اور ہراسانی
کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں اکثر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
خواتین صحافی: دوہرا دباؤ، دوہرا خطرہ
خواتین صحافیوں کی صورتحال مز ید تشویشناک ہے۔ خیبر پختونخوا جیسے قدامت پسند معاشرے میں خواتین کا
میڈیا میں آنا ایک جرات مندانہ قدم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان کے لیے یہ راستہ آسان نہیں۔ فیلڈ رپورٹنگ میں اکثر
انہیں مرد صحافیوں کے برابر مواقع نہیں دیے جاتے، اور جب وہ حساس موضوعات پر کام کرتی ہیں تو انہیں
شدید سوشل میڈیا ٹرولنگ، کردار کشی، اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا،
“جب بھی میں خواتین کے مسائل یا انسانی حقوق پر رپورٹ کرتی ہوں، میرے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ذاتی حملے
کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات میر ی تصاویر ایڈٹ کر کے وائرل کی جاتی ہیں تاکہ مجھے بدنام کیا جا سکے۔”
یہ مسئلہ صرف آن الئن تک محدود نہیں۔ دفاتر میں بھی خواتین کو جنس ی ہراسانی، کم تنخواہ، اور ترقی کے کم
مواقع جیسے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔
ڈیجیٹل دور : معلومات کا ہتھیار یا خطرہ؟
ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں صحافیوں کی رسائی اور اثر بڑھ گیا ہے، لیکن اس کے ساتھ خطرات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایک طرف جہاں سوشل میڈیا نے صحافیوں کو تیز تر خبریں پہنچانے کا ذریعہ دیا ہے، وہیں دوسر ی طرف یہ پلیٹ فارمز ہراسانی، جعلی خبر یں، اور غلط معلومات کے پھیالؤ کا ذر یعہ بھی بن گئے ہیں۔
صحافیوں کی ذاتی معلومات باآسانی آن الئن دستیاب ہو جاتی ہیں، جو کہ ان کے لیے سیکیورٹی رسک بن جاتی ہیں۔ خواتین صحافیوں کو خاص طور پر ٹارگٹڈ حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں ” ڈوکسنگ” )یعنی ذاتی معلومات افشا کرنا( عام ہے۔ قانونی تحفظ کی کمی آر ٹیکل 19 کے تحت صحافیوں کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اور وقتا فوقتا قوانین بھی بنائے گئے ہیں مگر ان کا عملی اطالق کمزور ہے۔ خیبر پختونخوا میں صحافیوں کی سالمتی کے لیے کوئی موثر حفاظتی پالیس ی یا مستقل فنڈ موجود نہیں۔ حملوں کے ز یادہ تر کیسز میں ملزمان کو سزا نہیں ملتی ، جس سے مجرموں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور دیگر تنظیمیں بارہا مطالبہ کر چکی ہیں کہ صحافیوں کی حفاظت کے لیے صوبائی سطح پر قانون ساز ی کی جائے اور خواتین میڈیا ورکرز کے لیے خصوصی تحفظاتی اقدامات کیے جائ
حل کیا ہے؟
حکومت کو چاہیے کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے موثر قانون ساز ی کرے، خاص طور پر خیبر پختونخوا جیسے حساس علاقوں میں خواتین صحافیوں کے لیے الگ شکایتی س یل اور ہراسانی سے بچاؤ کے اقدامات ضرور ی ہیں۔
میڈیا اداروں کو چاہیے کہ وہ سائبر س یکیورٹی ٹر یننگ فراہم کر یں اور سوشل میڈیا پر حملوں کے خلاف ادارہ جاتی تعاون کو یقینی بنائیں۔ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا.
خیبر پختونخوا میں صحافی، خاص طور پر خواتین، جمہور یت کے لیے ایک ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی حفاظت نہ صرف آزادی صحافت کے لیے، بلکہ معاشرے ک ی فالح و بہبود کے لیے بھی ضرور ی ہے۔ ڈیجیٹل دور نے جہاں امکانات پیدا کیے ہیں، وہیں خطرات بھی بڑھائے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان صحافیوں کی آواز بنیں، جو سچ کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں
صحافیوں کے تحفظ کیلئے کام کرنے والے ادارے میڈیا پرسنز کو اگر اسطرح کے مسائل یا خطرات درپیش ہو تو اس سے نمٹنے کیلئے ایف آئی اے کی ویب سائٹ پر جاکر آنالئن فارم فل کر کے جسمیں وہ سکرین شاٹس وغیرہ اپلوڈ کر سکتے ہیں یا ایف آئی اے آفس ) جو کہ پشاور اور مردان میں بھی موجود ہے (جا کر اپنی درخواست جمع کر سکتے ہیں۔
Freedom network pakistan
پریڈم نیٹ ورک پاکستان میں آزاد میڈیا اور صحافیوں کی تحفظ کیلئے کام کرنے واال ادارہ ہے جس نے ” 2016 میں ” محفوظ صحافی ” کے نام سے اپنا ویب سائٹ النچ کیا ہے جو صحافیوں کو درپیش مسائل خطرات اور تحفظ فراہم کرنے میں مدد کرتا ہے
Pakistan Press Freedom
اسطرح پاکستان پریس پریڈم میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کی تحفظ کیلئے کئ دہائیوں سے کام کر رہا ہے گزشتہ
10 سالوں سے پی پی ایف جرنلسٹس سیفٹی پر آل پاکستان سے صحافیوں کو جرنلسٹ سیفٹی پر مختلف ادوار میں
فیلوشپ ٹریننگ دے رہا ہے جسکا بنیادی مقصد اخالقی اور پرنسپل جرنلزم کو فروغ دینا ہے