نہ تعلیم، نہ شعور… کم عمری کی شادیاں بچیوں کا مستقبل نگل رہی ہیں”

نہ تعلیم، نہ شعور… کم عمری کی شادیاں بچیوں کا مستقبل نگل رہی ہیں”

صباحت حامد

مردان: جب ساتویں جماعت کی طالبہ زینب کو اسکول کی بجائے ایک ایسے گھر بھیج دیا گیا جہاں اس کی نئی شناخت “بیوی” بن چکی تھی، تو اس کے خوابوں نے دم توڑ دیا۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھی، لیکن اس کی تقدیر کم عمری کی شادی کی بھینٹ چڑھ گئی۔

یہ کہانی صرف زینب کی نہیں، خیبر پختونخوا، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے کئی دیہاتی علاقوں میں روزانہ درجنوں لڑکیاں ایسی روایات اور غلط سماجی فیصلوں کی وجہ سے تعلیم اور بچپن سے محروم ہو رہی ہیں۔

کم عمری کی شادیاں: ایک خاموش المیہ

کم عمری کی شادی نہ صرف بچیوں کے تعلیمی سفر کو روک دیتی ہے بلکہ ان کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی صحت پر بھی مہلک اثر ڈالتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق، 18 سال سے کم عمر میں ماں بننے والی لڑکیاں طبی پیچیدگیوں کا زیادہ شکار ہوتی ہیں، اور ان کے نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات بھی زیادہ ہوتی ہے۔

پاکستان میں ہر سال لاکھوں بچیاں کم عمری کی شادیوں کا شکار بنتی ہیں۔ اکثر اوقات غربت، جہالت اور سماجی دباؤ کو اس کی بنیادی وجوہات قرار دیا جاتا ہے۔ والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور جلد از جلد اس سے “جان چھڑانا” چاہتے ہیں، حالانکہ وہ ان کے بچپن، خوابوں اور زندگی کا قتل کر رہے ہوتے ہیں۔

قانونی پہلو: کیا صرف قانون کافی ہے؟

پاکستان میں “چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929” کے تحت شادی کی کم از کم عمر لڑکیوں کے لیے 16 اور لڑکوں کے لیے 18 سال مقرر ہے۔ تاہم، سندھ حکومت نے اس عمر کو لڑکیوں کے لیے بھی 18 سال کر دیا ہے، جبکہ باقی صوبوں میں ابھی اس میں تاخیر ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی اس قانون پر بحث ہوتی رہی، مگر عملی اقدامات کی رفتار سست ہے۔

قانون ہونے کے باوجود عملدرآمد کا فقدان، کمزور عدالتی نظام، اور سماجی دباؤ کی وجہ سے کم عمری کی شادیاں آج بھی جاری ہیں۔

اسلامی تعلیمات: صرف نکاح نہیں، شعور بھی ضروری

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس میں نکاح کو صرف ایک رسم نہیں، بلکہ ایک سنجیدہ ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ قرآن اور احادیث کے مطابق، نکاح کے لیے بلوغت، عقل، اور رضامندی لازمی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: “نکاح بالغ اور سمجھدار افراد کے درمیان ہونا چاہیے۔” (مسند احمد)

اسلام میں تعلیم کو فرض قرار دیا گیا ہے، اور خواتین کو بھی برابر کا تعلیمی حق دیا گیا ہے۔ حدیث ہے: “علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔” (ابن ماجہ)۔ لہٰذا، اسلام کم عمری کی شادیوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی نہیں کرتا بلکہ وہ بچیوں کی تعلیم، تربیت اور شعور پر زور دیتا ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم: ایک گھر نہیں، ایک قوم بنتی ہے

ایک پڑھی لکھی لڑکی نہ صرف اپنی زندگی بہتر بناتی ہے بلکہ ایک پورے خاندان اور نسل کی تربیت کرتی ہے۔ تعلیم یافتہ ماں بچے کی ابتدائی درسگاہ ہوتی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین غربت، بیماری، اور تشدد سے بہتر انداز میں نمٹ سکتی ہیں۔

پاکستان کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو ابھی تک ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ اسکولوں کی کمی، اساتذہ کی غیر موجودگی، اور نقل و حمل کی سہولتوں کا فقدان تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سماجی سوچ کو بدلنا بھی ضروری ہے۔

آگے کا راستہ: بیداری، عمل اور قانون

کم عمری کی شادیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ والدین، اساتذہ، علماء، مقامی حکومت، اور میڈیا اپنا کردار ادا کریں۔ اسکولوں میں بچیوں کی تعداد بڑھائی جائے، ان کے لیے علیحدہ تعلیمی ادارے اور محفوظ ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے، اور ہر یونین کونسل میں شعور بیدار کرنے کے لیے پروگرامز منعقد کیے جائیں۔

قانون سازی تب ہی مؤثر ہو سکتی ہے جب اس پر سختی سے عمل بھی ہو۔ پولیس، عدلیہ اور مقامی نمائندے مل کر اس ظلم کا راستہ روک سکتے ہیں۔

زینب جیسی بچیوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے صرف ہمدردی کافی نہیں، اب عملی قدم اٹھانے کا وقت ہے۔ اگر ہم نے آج یہ قدم نہ اٹھایا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

متعلقہ پوسٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے