سعودی عرب سے پانچ ہزار سے زائد پاکستانی بھکاریوں کی ملک بدری: پارلیمنٹ میں انکشاف، تشویشناک سماجی بحران بے نقاب

سعودی عرب سے پانچ ہزار سے زائد پاکستانی بھکاریوں کی ملک بدری: پارلیمنٹ میں انکشاف، تشویشناک سماجی بحران بے نقاب

اسلام آباد: قومی اسمبلی کو حال ہی میں مطلع کیا گیا ہے کہ سعودی عرب نے اب تک 5,327 پاکستانی بھکاریوں کو ملک بدر کیا ہے، جو ایک سنگین سماجی اور اخلاقی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ افراد حج، عمرہ یا دیگر ویزوں کے ذریعے سعودی عرب میں داخل ہوتے ہیں لیکن بعد میں پیشہ ورانہ بھیک مانگنے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اس عمل نے نہ صرف پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس کے پیچھے کارفرما مجرمانہ نیٹ ورکس اور ملکی سطح پر غربت، بے روزگاری اور سماجی ناہمواری کو بھی بے نقاب کیا ہے۔

قومی اسمبلی میں وزارت خارجہ کی رپورٹ
وزارت خارجہ کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق، جن پاکستانیوں کو سعودی عرب میں بھیک مانگنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، ان پر وہاں کے سخت انسدادِ بھیک قوانین کے تحت کارروائی کی گئی۔ قید کی سزا کاٹنے کے بعد ان افراد کو ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ سعودی حکومت نے اس مسئلے کو باقاعدہ سفارتی سطح پر بھی اجاگر کیا ہے اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو اس طرح کے اقدامات سے روکے۔

بھیک مانگنے والے نیٹ ورکس کی موجودگی
رپورٹس کے مطابق یہ افراد انفرادی طور پر نہیں بلکہ منظم گروہوں اور نیٹ ورکس کے ذریعے سعودی عرب بھیجے جاتے ہیں۔ بعض اوقات پورے خاندان یا گروپ حج یا عمرہ کے نام پر سفر کرتے ہیں اور بعد ازاں مدینہ، مکہ، جدہ اور ریاض میں مخصوص مقامات پر بھیک مانگتے پائے جاتے ہیں۔ ان نیٹ ورکس میں شامل افراد نہ صرف خود بھیک مانگتے ہیں بلکہ خواتین، بچوں، بزرگوں اور معذور افراد کو بطور “ہمدردی کا ذریعہ” استعمال کرتے ہیں تاکہ زیادہ پیسے بٹورے جا سکیں۔

پاکستان میں بھکاریوں کی مجموعی تعداد اور معیشت پر اثرات
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق، پاکستان میں اس وقت تقریباً 2 کروڑ 20 لاکھ کے قریب افراد بھیک مانگنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں، جو سالانہ اندازاً 42 ارب روپے کی بھیک اکٹھی کرتے ہیں۔ یہ ایک باقاعدہ ‘انفارمل اکانومی’ کی شکل اختیار کر چکا ہے، جو نہ صرف معاشرے کے لیے باعث شرمندگی ہے بلکہ حکومت کے لیے ایک انتظامی چیلنج بھی بن چکا ہے۔

حکومتی اقدامات اور ناکافی حکمتِ عملی
وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) نے مشتبہ افراد کی فہرست تیار کی ہے جنہیں بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) میں شامل کیا گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں 4,300 سے زائد افراد کو ای سی ایل میں ڈالا گیا تاکہ وہ دوبارہ بیرون ملک جا کر بھیک مانگنے میں ملوث نہ ہو سکیں۔ تاہم، ماہرین کے مطابق صرف روک تھام کا عمل کافی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے موجود وجوہات کو ختم کرنا زیادہ ضروری ہے۔

بچوں اور خواتین کا استحصال
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ اکثر اوقات کم عمر بچوں اور خواتین کو سعودی عرب بھیجا جاتا ہے تاکہ ہمدردی حاصل کر کے زیادہ رقم اکٹھی کی جا سکے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس رویے کو بچوں اور خواتین کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتی ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہیں کہ ایسے نیٹ ورکس کو بے نقاب کر کے ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔

بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ متاثر
پاکستانی شہریوں کا اس طرح غیر قانونی طور پر بھیک مانگنے میں ملوث ہونا نہ صرف انفرادی سطح پر شرمناک ہے بلکہ اجتماعی طور پر ملکی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔ سعودی عرب جیسے برادر اسلامی ملک میں پاکستانیوں کا ایسا کردار مستقبل میں ویزہ پالیسیوں کو سخت بنانے، تفتیشی عمل میں اضافے اور دو طرفہ تعلقات پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

سماجی ماہرین کا مؤقف
سماجی ماہرین کے مطابق اس رجحان کی بنیادی وجوہات میں غربت، بے روزگاری، تعلیم کی کمی، معاشی ناہمواری، اور ریاستی اداروں کی ناکامی شامل ہیں۔ جب تک ان بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا، ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے، چاہے انہیں وقتی طور پر روکنے کی کوشش کی جائے۔

اصلاحات کی ضرورت
یہ مسئلہ وقتی روک تھام یا ای سی ایل جیسے اقدامات سے حل نہیں ہوگا، بلکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سماجی تحفظ کے منصوبے شروع کرے، فنی تربیت فراہم کرے، اور بھکاری نیٹ ورکس کے خلاف بھرپور قانونی کارروائی کرے۔ صرف اسی صورت میں پاکستان اس بین الاقوامی بدنامی سے بچ سکتا ہے اور اپنے شہریوں کو عزت دار روزگار مہیا کر سکتا ہے۔

News Courtesy by: Dawn.com

متعلقہ پوسٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے