خواجہ سرا ڈولفن آیان کی پرانی ویڈیو وائرل، وزیراعلیٰ کا نوٹس

خواجہ سرا ڈولفن آیان کی پرانی ویڈیو وائرل، وزیراعلیٰ کا نوٹس

انیس ٹکر

پشاور: خواجہ سرا ڈولفن آیان کی دو سال پرانی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے یہ معاملہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے۔ ڈولفن آیان کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو زبردستی بنائی گئی تھی اور اسے دوبارہ منظر عام پر لانے کا مقصد انہیں ہراساں کرنا ہے۔

ڈولفن آیان نے ویڈیو وائرل ہونے پر فوری طور پر پولیس کو درخواست دے دی ہے اور ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں بھی قانونی کارروائی کے لیے درخواست جمع کروانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے اپنی درخواست میں ملزم کا نام اور پتہ شامل کیا ہے تاکہ قانون کے مطابق کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔

پولیس حکام نے اس معاملے پر انتہائی سنجیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ایس پی سٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ مقامی تھانے کی پولیس ڈولفن آیان کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے اور ملزم کی شناخت کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ ایس پی سٹی کے مطابق اس کیس میں ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ ملزم کو جلد از جلد گرفتار کیا جا سکے۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بھی واقعے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے پولیس حکام کو ہدایت دی ہے کہ ملوث افراد کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کا مکمل تحفظ یقینی بنایا جائے۔

چارسدہ کے تھانہ سرو کے ایس ایچ او جمال حبیب کے مطابق شبقدر سرکل پولیس نے دیگر تھانوں کے ہمراہ ملزم کو گرفتار کرنے کے لئے گھر پر چھاپہ مارا تاہم ملزم پہلے ہی فرار ہو چکا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم کے والد لاہور میں تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لیے گئے ہوئے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ، عدالتی انصاف کا فقدان

خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں، خواتین اور بچوں پر تشدد کے بڑھتے واقعات لمحہ فکریہ ہیں۔ پولیس کی دستاویزات کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے 234 واقعات رپورٹ ہوئے مگر صرف ایک کیس میں سزا ممکن ہو سکی۔ خواتین پر تشدد کے 8,299 کیسز میں سے 168 افراد کو اور بچوں پر تشدد کے 3,598 کیسز میں صرف 187 افراد کو سزائیں مل سکیں۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال خواتین پر تشدد کے 1,859، بچوں پر 924 اور خواجہ سراؤں پر 61 واقعات رپورٹ ہوئے۔ پولیس حکام نے ان نتائج کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے بتایا کہ مقدمات میں کمزور دفعات، تفتیشی افسران و عملے کی کمی اور دیگر وجوہات کے باعث اکثر ملزمان کو سزائیں نہیں ملتیں۔

خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا کمیونٹی کے لیے یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور حکومتی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

Website | + posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے