خیبر پختونخوا کے دوسرے بڑے شہر مردان میں ہندو برادری کے مسائل

خیبر پختونخوا کے دوسرے بڑے شہر مردان میں ہندو برادری کے مسائل

بخت محمد یوسفزئی

مردان: خیبر پختونخوا کے دوسرے بڑے شہر مردان کی کل آبادی تقریباً 27 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہاں پر مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں جن میں ہندو، سکھ اور مسیحی برادری کے لوگ شامل ہیں۔ ہندو مذہب کے مطابق وہ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ اس حوالے سے ہندو برادری کے سرون کمار نے بتایا کہ جب کسی مرد کی وفات ہوتی ہے تو ان کے خاندان والے انہیں نہلاتے ہیں اور کفن پہنا کر شمشان گھاٹ لے جاتے ہیں جہاں ان کے دیگر رسومات ادا کیے جاتے ہیں۔ وہاں پر 90 فیصد خواتین کا داخلہ مذہبی طور پر ممنوع ہوتا ہے اور بچوں کو بھی شمشان گھاٹ جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

شمشان گھاٹ میں مردے کے جسم کے مطابق لکڑیاں ایک خاص طریقے سے رکھی جاتی ہیں اور مردے کو ان کے اوپر لٹایا جاتا ہے۔ پھر مردے کے جسم کے اوپر لکڑیاں رکھی جاتی ہیں تاکہ ان کا جسم پوری طرح لکڑیوں میں چھپ جائے۔ اس عمل کو ہم سزکار کہتے ہیں۔ سرون کمار نے بتایا کہ اس کے بعد لکڑیوں پر مٹی کا تیل اور گھی ڈالا جاتا ہے تاکہ جسم کو آگ پوری طرح لگ جائے۔ آگ لگانے والا ان کا بیٹا، بھائی یا پھر خاندان کے کوئی بزرگ ہونا لازمی ہے۔

اس عمل کے تین دن بعد جسم کی باقی ماندہ ہڈیوں کو پھول کہا جاتا ہے اور ان ہڈیوں کو خالص اور تازہ دودھ سے دھو کر کسی بالٹی یا مٹکے میں صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ پنجاب کے سنگم میں واقع دریائے اٹک میں بہا دیا جاتا ہے۔ سر کی کھوپڑی کو ایک کٹوے میں بہا دیا جاتا ہے۔ شادی شدہ خواتین کو مرنے کے بعد دلہنوں کی طرح سجا دیا جاتا ہے اور سزکار سے قبل ان کے منہ میں پرساد ڈال دیا جاتا ہے۔ نابالغ بچوں اور وصیت کرنے والوں کو دفن کیا جاتا ہے۔

شمشان گھاٹ کا مسئلہ

ہندوؤں اور سکھوں کی برادری کے ڈویژنل صدر اشوک کپور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کے غیور پختونوں کی مضبوط روایات ہمیں یہ احساس نہیں دلاتی کہ ہم یہاں اقلیت میں ہیں بلکہ ہم یہاں بلکل ان کی طرح آزاد اور سکون کی زندگی گزارتے ہیں۔ تاہم، ہمارے چند مسائل ہیں جن میں اہم مسئلہ شمشان گھاٹ کا ہے۔ پہلے شمشان گھاٹ آبادی سے باہر تھا لیکن اب آبادی بڑھنے سے شمشان گھاٹ آبادی کے عین وسط میں ہے جس کی وجہ سے ہمیں کئی مسائل کا سامنا ہے۔

حکومت سے درخواست

ہم نے گزشتہ پانچ، چھ سال سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے تحریری رابطے کیے ہیں کہ ہمارے برادری کے لیے شہر سے باہر اراضی دی جائے تاکہ ہم اپنے مردوں کا سزکار کرسکیں۔ مگر بدقسمتی سے ہماری فریاد پر عمل کرنے والا کوئی نہیں۔ اشوک کپور نے بتایا کہ پشاور سے ایک ہزار تک ہمارے برادری کے لوگ عدم تحفظ کی وجہ سے ملک کے دیگر صوبوں اور کچھ بیرون ملک چلے گئے۔ اگر ہمارے مسائل اسی طرح لٹکتے رہے تو ہمیں بھی اپنے آباواجداد کا شہر چھوڑنا پڑے گا۔

اقلیتی برادری کی صورتحال

اشوک کپور نے بتایا کہ ضلع مردان میں ہندو اور سکھ برادری کی کل تعداد 600 ہے جس میں ہندوؤں کے 32 اور سکھ برادری کے 54 گھرانے آباد ہیں۔ ان میں نصف سے زیادہ خواتین ہیں۔ اشوک کپور نے کہا کہ ہمارے آباواجداد یہاں آباد تھے، اس لیے ہم نے بھی پاک ہند بٹوارے کے وقت یہاں رہنے کو ترجیح دی اور ہم آج تک اپنے فیصلے پر خوش ہیں۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ کچھ مسائل پیدا ہوئے جن میں ہمارے شمشان گھاٹ کا مسئلہ اہم ہے۔

شمشان گھاٹ کی تعمیر نو

مردان میں موجود شمشان گھاٹ قدیمی ہے اور یہاں نہ صرف مردان کے ہندو یا سکھ برادری کے آخری رسومات ادا کیے جاتے ہیں بلکہ بونیر، صوابی اور اٹک ضلع کے لوگ بھی اپنی آخری رسومات یہاں ادا کرنے آتے ہیں۔ اشوک کپور نے بتایا کہ ہم نے حکومت سے 6 سے 7 کنال کی زمین شہر سے باہر شمشان گھاٹ کے لیے مانگی ہے مگر گزشتہ 10 سالوں سے کوئی ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں۔

تعلیمی کوٹہ کے مسائل

اشوک کپور نے بتایا کہ ہمارے بچوں کو صوبے کے عظیم اور تاریخی درسگاہ اسلامیہ کالج میں کوٹہ پر داخلہ نہیں دیا جاتا۔ مردان کے تحصیل گڑھی کپورہ میں ہم نے ایک وسیع مسجد اور مدرسے کے لیے مفت زمین دی تھی اور اب بھی اس نیکی کو یاد کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہمیں سرکاری طور پر وہ سپورٹ نہیں دی جاتی جو پہلے دی جاتی تھی۔

محکمہ اوقاف کا موقف

صوبائی محکمہ اوقاف کے اہلکار سجاد خان نے بتایا کہ اقلیتی برادری کے مذہبی عبادت گاہوں کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے اور یہ اے وی کیو ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ کے ساتھ ہے۔ ہمیں ابھی تک سیدھا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ البتہ پشاور میں چاچا یونس پارک اور کینٹ بازار میں ہندو برادری کے تاریخی مندر اور سکھ برادری کے گوردوارہ کے مسائل ہیں۔ ہم نے اقلیتی برادری کے لیے ترقیاتی فنڈ میں 50 ملین رقم مختص کی ہے اور اس سال 13 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔

تعلیمی اور ویلفیئر پیکجز

صوبائی حکومت نے اقلیتی برادری کے بچوں کی تعلیم کے لیے 100 ملین روپے کی گرانٹ منظور کی ہے جس میں اسکالر شپ شامل ہے۔ اس کے علاوہ اقلیتی ویلفیئر پیکج خیبر پختونخوا میں 100 ملین کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جس میں اقلیتی بیوہ، نئے شادی شدہ جوڑوں، اور یتیم بچوں کے لیے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔

Website | + posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے