کرک میں کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی سے وابستہ بنگلہ دیشی شدت پسند ہلاک

کرک میں کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی سے وابستہ بنگلہ دیشی شدت پسند ہلاک

عمرفاروق

پشاور: خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے علاقے درشہ خیل میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ ایک بنگلہ دیشی شدت پسند ہلاک ہوگیا۔ بنگلہ دیشی میڈیا رپورٹس کے مطابق ہلاک شخص کی شناخت فیصل حسین مرول عرف سعد کے نام سے ہوئی ہے۔

فیصل حسین کا تعلق بنگلہ دیش کے ضلع مداری پور کے گاؤں دتوخالی سے بتایا جاتا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق وہ اپنے گاؤں میں ایک چھوٹی دکان چلاتا تھا جہاں عطر اور مذہبی اشیاء فروخت کرتا تھا۔ اہل خانہ کو اس نے بتایا تھا کہ وہ دبئی میں کاروبار کر رہا ہے، تاہم بعد ازاں انکشاف ہوا کہ وہ افغانستان کے راستے پاکستان آیا اور ٹی ٹی پی میں شامل ہوگیا۔

تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل بنگلہ دیشی پولیس نے فیصل کے اہل خانہ کو مطلع کیا تھا کہ وہ دبئی میں نہیں بلکہ پاکستان جا کر شدت پسندوں کے ساتھ شامل ہوگیا ہے۔ اس اطلاع کے بعد گھر والے شدید صدمے سے دوچار ہوئے۔ فیصل کے قریبی رشتہ دار توصیف نے میڈیا کو بتایا کہ “فیصل ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ وہ دبئی میں کاروبار کر رہا ہے اور وہیں سے ہم سے رابطے میں رہتا تھا۔ ہمیں یہ جان کر شدید دھچکا لگا کہ وہ پاکستان میں مارا گیا ہے۔ پورا خاندان پریشانی میں ہے اور ہم اس کی میت کی واپسی کے لیے پاکستانی حکام سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔”

بنگلہ دیش کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ٹی ٹی پی کی صفوں میں آٹھ بنگلہ دیشی شدت پسند شامل ہیں۔ ان میں سے دو پہلے ہی مختلف کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں، ایک وزیرستان کے شوال میں اور دوسرا میانوالی میں۔ فیصل اس سلسلے کا تیسرا فرد ہے، جبکہ باقی پانچ کے بارے میں معلومات تاحال سامنے نہیں آئیں۔

پاکستانی حکام نے کرک واقعے کی باضابطہ تصدیق نہیں کی، تاہم سوشل میڈیا پر ٹی ٹی پی سے منسلک بعض اکاؤنٹس نے فیصل کو “شہید” قرار دیتے ہوئے اس کی تصاویر اور تعریفی پیغامات شیئر کیے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق کسی بنگلہ دیشی شہری کا ٹی ٹی پی میں شامل ہونا ایک غیر معمولی پیشرفت ہے۔ پشاور کے صحافی جواد یوسفزئی کا کہنا ہے، “افغان جنگجوؤں کا ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونا عام بات ہے، لیکن کسی بنگلہ دیشی کے شامل ہونے کی خبر کو تنظیم نمایاں کر رہی ہے تاکہ وہ خود کو محض پاکستان کے خلاف سرگرم ایک مقامی گروہ کے بجائے ایک بین الاقوامی شدت پسند نیٹ ورک کے طور پر پیش کر سکے۔ اس طرح وہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کے ہم پلہ دکھائی دینا چاہتے ہیں تاکہ انہیں خطے سے باہر بھی حمایت اور پذیرائی حاصل ہو سکے۔”

تحریک طالبان پاکستان کا پس منظر

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا قیام 2007 میں عمل میں آیا۔ ابتدا میں اس کے جنگجو شمالی و جنوبی وزیرستان سمیت قبائلی اضلاع میں ریاستی اداروں کو نشانہ بناتے رہے، بعد ازاں یہ گروہ ملک کے مختلف شہروں میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں بھی ملوث رہا۔

پاکستانی حکام کے مطابق ٹی ٹی پی کی موجودہ قیادت افغانستان میں مقیم ہے اور سرحدی علاقوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیصل حسین کی ہلاکت اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ گروہ مقامی سطح سے نکل کر اپنی صفوں کو بین الاقوامی رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

Website |  + posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے