فلسطینی عوام کی نسل کشی، اُن کا مستقبل اور ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام
تحریر عمر فاروق
نیویارک کی پُرہجوم گلیوں میں جب اقوامِ متحدہ کا سالانہ اجلاس جاری تھا تو عالمی میڈیا کی توجہ ایک شخصیت پر مرکوز ہو گئی۔ یہ شخصیت فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون تھے، جنہوں نے نہ صرف اجلاس کے ہالز میں بلکہ ان ہالز سے باہر بھی فلسطین کے مسئلے کو ایک نئے انداز سے دنیا کے سامنے رکھا۔
اس اجلاس میں کئی دولت مند ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت کا اعلان کیا۔ یہ پیش رفت شاید ابھی ممکن نہ ہوتی اگر میکرون اپنی مخصوص جرات اور سفارتی دباؤ کے ساتھ عالمی پلیٹ فارمز پر سامنے نہ آتے۔ اُن کا حالیہ انٹرویو امریکی چینل سی بی ایس نیوز کے پروگرام Face the Nation میں اسی سلسلے کی سب سے توانا آواز تھا۔ تقریباً چھتیس منٹ طویل اس گفتگو کے پہلے بیس منٹ صرف ایک ہی موضوع پر تھے: فلسطینی عوام کی نسل کشی، اُن کا مستقبل اور ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام۔
میکرون نے وہاں ایک ایسا نکتہ اٹھایا جو مغربی لیڈرز کی زبان پر شاذ و نادر ہی آتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اسرائیل شاید شام، لبنان یا ایران کے محاذوں پر وقتی کامیابیاں سمیٹ لے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اُن کے مطابق پچیس ہزار جنگجوؤں میں سے اگر آدھے مارے بھی گئے تو حماس نے اتنی ہی تعداد نئے بھرتی کر لی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے: محض فوجی کارروائی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
یہی پس منظر تھا جس میں میکرون نے اپنا پانچ نکاتی منصوبہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب ایمرجنسی فیزز ہیں، لمبے چوڑے وقفوں کے بجائے فوری اقدامات، تاکہ شہریوں کو امید بھی ملے اور تحفظ بھی۔
پانچ فیزز کا نقشہ
پہلا اور بنیادی قدم بین الاقوامی سطح پر فلسطینی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کرنا اور اس کے لیے سیاسی و سکیورٹی گارنٹیز کا اعلان ہے، تاکہ فلسطینیوں کے سامنے ایک واضح متبادل موجود ہو اور انہیں سیاسی شمولیت کے ذریعے تشدد سے ہٹ کر زندگی کے دیگر راستے دکھائے جا سکیں۔
دوسرا مرحلہ اس عین حقیقت پر مبنی ہے کہ انسانی نقصان کو فوراً کم کیا جائے: اس میں غزہ میں فوری جنگ بندی اور تمام اسرائیلی قیدی — خواہ زندہ ہوں یا مردہ — کو اسرائیل کے حوالے کرنا شامل ہے، اور ساتھ ہی غزہ میں جو انسانی امدادی راستے اسرائیل نے بند کر رکھے ہیں انہیں کھولنا — پانی، خوراک، ادویات اور طبی امداد کی بلا روک ٹوک رسائی کو یقینی بنانا۔ یہ مرحلہ بنیادی انسانی ضرورتوں کو پہلی ترجیح دیتا ہے تاکہ مزید جانی نقصان روکا جا سکے اور قیدیوں کے اہلِ خانہ کو انصاف فراہم ہو سکے۔
تیسرا فیز ایک بین الاقوامی سکیورٹی فورس کی تعیناتی کا ہے، جسے اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت فلسطینی علاقوں میں لایا جائے گا۔ میکرون نے انکشاف کیا کہ پولیس ٹریننگ کے کئی پروگرام مختلف ممالک میں پہلے سے جاری ہیں، اور یہ فورس مستقبل میں فلسطینی عوام کی داخلی سکیورٹی کی گارنٹی دے گی۔
چوتھا فیز فلسطینی ریاست کے سیاسی قیام کا ہے۔ میکرون کے مطابق اگر دنیا فلسطینیوں کو یہ متبادل نہیں دکھائے گی کہ حماس کے علاوہ بھی ایک پُرامن راستہ موجود ہے تو پھر اُن کے پاس لڑنے اور مرنے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے کئی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عمل شروع کیا۔
پانچواں اور آخری فیز انسانی بحالی اور تعمیرِ نو کا ہے۔ اسپتال، اسکول، پانی اور بجلی کا نظام، انصاف اور شفاف حکومت — یہ سب وہ ستون ہیں جو کسی بھی ریاست کی بنیاد بنتے ہیں۔ میکرون نے کہا کہ یہ انسانی ذمہ داری ہے جسے دنیا ٹال نہیں سکتی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اقدامات زیادہ تر یورپی ممالک کی طرف سے اٹھائے جا رہے ہیں۔ اسپین نے اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا، آئرلینڈ، آئس لینڈ اور سلووینیا جیسے ملک بھی ریڈ لائن کھینچنے لگے۔ حتیٰ کہ کھیلوں کی دنیا تک میں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی باتیں ہونے لگیں۔
اس کے برعکس عرب دنیا کا رویہ کہیں زیادہ سرد اور محتاط رہا۔ سعودی عرب اور قطر نے اسرائیل پر واضح پابندیاں عائد نہیں کیں، جب کہ متحدہ عرب امارات نے تو اسے ایک موقع سمجھ کر اسرائیل کے ساتھ تعاون بڑھا لیا۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ “سفارتی کاروبار” ہے، مگر عام فلسطینی کے لیے یہ رویہ کم از کم مایوس کن ضرور ہے۔
میکرون نے اپنے انٹرویو کے آخر میں سخت الفاظ استعمال کیے۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکہ اور فرانس کو اپنی ساکھ بچانے کے لیے ایسے منصوبے کا حصہ نہیں بننا چاہیے جو فلسطینی عوام کو اپنی زمینوں سے جلاوطن کرنے پر مبنی ہو۔ یہ پاگل پن ہے، اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اُن کے ساتھ برطانیہ، اسپین، آئرلینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا جیسے ممالک اور سعودی عرب بھی شامل ہیں، جو اس وقت فرانس کے ساتھ مل کر یو این اجلاس کو ہوسٹ کر رہے ہیں۔
یہ ساری گفتگو ایک مغربی لیڈر کے منہ سے سننا شاید پہلی بار ہے۔ فلسطینی ریاست کے لیے کھل کر آواز بلند کرنا، صرف مذمت پر اکتفا نہ کرنا بلکہ متبادل پیش کرنا — یہ وہ سفارتی قدم ہے جس نے فلسطین کے مسئلے کو ایک نئے زاویے سے دنیا کے سامنے رکھا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ پانچ فیزز، یہ منصوبہ محض کاغذی خاکہ رہ جائے گا یا واقعی فلسطینی عوام کے لیے ایک نئے مستقبل کا دروازہ کھولے گا؟ دنیا کی نظریں اب صرف اقوامِ متحدہ پر نہیں بلکہ صدر میکرون جیسے لیڈروں پر بھی ٹکی ہوئی ہیں، جو اس وقت فلسطین کے لیے امید کی سب سے توانا کرن بنے ہوئے ہیں۔

Umer Farooq
عمر فاروق وائس اف امریکہ اردو سروس، فرینٹئر پوسٹ، اردو نیوز اور دیگر قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ گزشتہ 11 سال سے صحافتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں وہ خیبر پختون خواہ میں انویسٹیگیٹو اور ملٹی میڈیا جرنلزم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں