اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کی چار خواتین صحافیوں کے خلاف سائبر ہراسمنٹ کا مقدمہ، اصل حقیقت کیا ہے؟

اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کی چار خواتین صحافیوں کے خلاف سائبر ہراسمنٹ کا مقدمہ، اصل حقیقت کیا ہے۔

رپورٹ محمد باسط خان

ایف آئی اے نے پیکا ایکٹ کے تحت نیشنل پریس کلب کی چار خواتین صحافیوں کے خلاف سائبر ہراسمنٹ کا مقدمہ درج کیا ہے، صحافتی تنظیموں اور خواتین جرنلسٹس نے اقدام کو آزادیٔ اظہار پر حملہ قرار دے دیا

اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے نیشنل پریس کلب کی چار سینئر خواتین صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے، جن میں کلب کی جنرل سیکریٹری نائیر علی، جوائنٹ سیکریٹری سحرش قریشی، مائرہ عمران اور شکیلہ جلیل شامل ہیں۔

یہ چاروں صحافی نیشنل پریس کلب کی ہراسمنٹ کمیٹی کا حصہ تھیں۔ کچھ عرصہ قبل اس کمیٹی نے ایک کیس کی تحقیقات کے بعد پریس کلب کے دو اراکین کو ہراسانی کے الزام میں قصوروار قرار دیتے ہوئے ان کی رکنیت معطل کر دی تھی۔ تاہم، اس فیصلے کو متاثرہ خاتون رکن کے سابق شوہر ناصر خان خٹک نے چیلنج کیا اور ایف آئی اے میں شکایت درج کرا دی۔

ان کا مؤقف ہے کہ انہیں سوشل میڈیا پر ہراساں کیا جا رہا ہے اور کمیٹی کے اراکین اس عمل کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

ایف آئی آر میں کیا ہے؟

ایف آئی اے میں درج ایف آئی آر کے میں ناصر خان خٹک نے اپنی سابقہ اہلیہ سلمیٰ شاہد اور نیشنل پریس کلب کی خواتین صحافیوں کو نامزد کیا ہے۔

جس پر الزام ہے کہ سلمیٰ شاہد نے جعلی فیس بک پروفائل بنا کر ان کے خلاف نازیبا اور دھمکی آمیز مواد شائع کیا، جبکہ واٹس ایپ گروپ میں بھی ان کے خلاف توہین آمیز پیغامات شیئر کیے گئے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس واٹس ایپ گروپ کے 171 ممبران اور 4 ایڈمنز ہیں جن کے ایڈمنز میں خاتون صحافی نائیر علی، مائرہ عمران، سحرش قریشی اور ایک اور صارف شامل ہیں۔ یہ مقدمہ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی دفعہ کے تحت درج کیا گیا ہے۔
نیشنل پریس کلب کی جنرل سیکریٹری نایر علی نے “کے پی آبزرور” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس واٹس ایپ گروپ کا ذکر شکایت میں کیا گیا ہے وہ دراصل کلب کی ویمن ہراسمنٹ کمیٹی کا پلیٹ فارم ہے، جہاں ہراسانی کے کیسز سنے اور حل کیے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق اس گروپ میں کوئی ایسا مواد موجود نہیں تھا جس کی بنیاد پر پیکا کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا تھا۔

اس حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ مقدمہ کسی خاص گروہ یا صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ ایک عام شہری کی درخواست پر درج کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق چونکہ معاملہ سائبر ہراسمنٹ اور سوشل میڈیا مواد سے متعلق ہے، اس لیے یہ کیس ایف آئی اے کے سائبر ونگ میں درج کیا گیا۔

ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان کی بانی فوزیہ کلثوم رانا نے مقدمے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خواتین صحافی پہلے ہی فیلڈ میں مشکلات کا سامنا کرتی ہیں، اور اب ان پر مقدمات قائم کر کے انہیں مزید دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول یہ اقدام آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر براہِ راست حملہ ہے۔

پیکا ایکٹ کے تحت صحافیوں کے خلاف کتنے مقدمات درج کیے گئے؟

یہ پہلا موقع نہیں جب پیکا ایکٹ کے تحت صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ حال ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کو پیش کی گئی وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق، پیکا ایکٹ کے تحت صرف صحافیوں کے خلاف 9 مقدمات درج کیے گئے جبکہ عام شہریوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف 2600 سے زائد مقدمات رپورٹ ہوئے۔ زیادہ تر کیسز میں مدعی براہِ راست ریاست ہی تھی۔

خواتین صحافیوں کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہونے پر مختلف صحافتی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے سخت الفاظ میں مذمت کی اور اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا۔

Muhammad Basit Khan
+ posts

محمد باسط خان خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد بیسڈ ایک صحافی ہیں جو کرائم، ماحولیات اور انسانی حقوق جیسے اہم موضوعات پر لکھتے ہیں۔ وہ مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں سے بھی وابستہ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے