میڈیکل آفیسرز کے ٹیسٹ میں ناکامی کی بلند شرح، غیر معیاری غیر ملکی ڈگریاں سوالیہ نشان بن گئیں

میڈیکل آفیسرز کے ٹیسٹ میں ناکامی کی بلند شرح، غیر معیاری غیر ملکی ڈگریاں سوالیہ نشان بن گئیں

عمر فاروق

پشاور: پشاور سمیت خیبر پختونخوا بھر میں 14 اور 15 جون کو منعقد ہونے والے میڈیکل آفیسرز کے تحریری ٹیسٹ کے نتائج نے شعبہ طب میں تعلیمی معیار اور بھرتی کے عمل پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ایجوکیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایویلیوایشن ایجنسی (ایٹا) کے زیر اہتمام ہونے والے اس ٹیسٹ میں مجموعی طور پر 8,974 امیدواروں نے حصہ لیا، جن میں سے صرف 1,766 امیدوار کامیاب ہو سکے، جبکہ 5,664 امیدوار فیل ہو گئے۔

ذرائع کے مطابق فیل ہونے والے امیدواروں کی اکثریت اُن ڈاکٹروں پر مشتمل ہے جنہوں نے چین، ازبکستان اور تاجکستان جیسے ممالک سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان ممالک میں ڈگری کے حصول میں آسانی، کم تعلیمی تقاضے، اور تربیتی سہولیات کی کمی کے باعث وہاں سے فارغ التحصیل نوجوان بظاہر تو ڈاکٹر بن جاتے ہیں، لیکن پیشہ ورانہ مہارت میں واضح کمی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں امیدوار اس ٹیسٹ میں ناکام ہوئے۔

اس حوالے سے مشیر صحت خیبر پختونخوا احتشام علی کا کہنا ہے کہ کنٹریکٹ پر لئے جانے والے ڈاکٹرز کا رزلٹ ایٹا نے آؤٹ کر دیا ہے، اور صرف وہی امیدوار بھرتی ہوں گے جو میرٹ پر آئے ہیں۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ “نہ جرگے بلائے گئے ہیں، نہ بلائے جائیں گے۔ سفارش والا زمانہ گیا”۔

ذرائع کے مطابق فیل ہونے والے امیدواروں کی بڑی تعداد اُن ڈاکٹروں پر مشتمل ہے جنہوں نے چین، ازبکستان اور تاجکستان جیسے ممالک سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان ممالک میں داخلے کے آسان مواقع، کم تعلیمی تقاضے، اور ڈگری کے حصول میں سہولت نے گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی طلباء کو بڑی تعداد میں متوجہ کیا۔ تاہم تربیتی معیار اور طبی سہولیات کی کمی کے باعث یہ ڈگریاں طلباء کو مطلوبہ مہارت اور علم فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان ممالک سے فارغ التحصیل نوجوان بظاہر میڈیکل کی ڈگری تو حاصل کر لیتے ہیں، مگر عملی میدان میں آنے کے بعد ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں مطلوبہ معیار پر پوری نہیں اُترتیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی سطح پر لیے گئے اس ٹیسٹ میں ان کی اکثریت ناکام رہی، جس نے صحت کے شعبے میں بھرتیوں کے لیے میرٹ اور قابلیت پر مبنی جانچ کی اہمیت کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔

ایک سینئر میڈیکل افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ “یہ رجحان نہ صرف شعبہ طب کے معیار کے لیے خطرناک ہے بلکہ عوام کی صحت اور جانوں کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرونِ ملک میڈیکل تعلیم کے لیے واضح اور سخت ضوابط متعارف کرائے جائیں تاکہ صرف معیاری اداروں سے تربیت یافتہ افراد ہی میدان میں آئیں۔”

یاد رہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) نے بھی متعدد غیر ملکی اداروں کی اسناد پر سوالات اٹھائے ہیں اور کئی اداروں کی منظوری منسوخ کی جا چکی ہے۔ اس کے باوجود غیر ملکی ڈگری یافتہ افراد کی بڑی تعداد ملک میں واپس آ کر میڈیکل پریکٹس کے لیے کوشاں نظر آتی ہے، جس سے نہ صرف مقامی طلباء کے لیے مواقع محدود ہوتے ہیں بلکہ مریضوں کی جانیں بھی غیر محفوظ ہاتھوں میں چلی جاتی ہیں۔

خیبر پختونخوا میں میڈیکل آفیسرز کی بھرتی کے لیے اس مرتبہ لیے گئے امتحان نے واضح کر دیا ہے کہ صرف ڈگری ہونا کافی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عملی تربیت، قابلیت اور معیاری علم بھی بنیادی تقاضے ہیں، جنہیں نظر انداز کرنا کسی بھی صورت عوامی مفاد میں نہیں۔

Umer Farooq
+ posts

عمر فاروق وائس اف امریکہ اردو سروس، فرینٹئر پوسٹ، اردو نیوز اور دیگر قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ گزشتہ 11 سال سے صحافتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں وہ خیبر پختون خواہ میں انویسٹیگیٹو اور ملٹی میڈیا جرنلزم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے