مدارس بل ایکٹ پر عالمی پابندیوں کا خطرہ یا داخلی تنازعات

مدارس بل ایکٹ پر عالمی پابندیوں کا خطرہ یا داخلی تنازعات

عمر فاروق

مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے مجوزہ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ پر صدر مملکت آصف علی زرداری کے اعتراضات سامنے آنے کے بعد ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ صدر نے اس بل پر آٹھ اعتراضات اٹھائے ہیں، جن میں ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کے معاہدے اور پاکستان کی عالمی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کا خدشہ نمایاں ہے۔

پاکستان 2018 سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہا ہے، جس سے نکلنے کے لیے اس نے کئی قانونی اصلاحات کی ہیں، جن میں دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے اور غیر قانونی تنظیموں کے خلاف اقدامات شامل ہیں۔ اکتوبر 2022 میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا تھا، لیکن اس کے ساتھ مزید نگرانی کے تحت رہنے کی شرط رکھی تھی۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو مالی شفافیت، غیر منافع بخش تنظیموں کی رجسٹریشن، اور فنڈز کے استعمال کی کڑی نگرانی کی ذمہ داری دی تھی۔

صدر مملکت نے اپنے اعتراض میں کہا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن اگر سوسائٹیز ایکٹ 1860 کے تحت کی گئی تو اس کے نفاذ میں شفافیت کی کمی ہوگی، جس سے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی خلاف ورزی کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ قانون غیر قانونی تنظیموں کو مدارس کی آڑ میں رجسٹریشن کا موقع فراہم کر سکتا ہے، جو دہشت گردی کے لیے مالی معاونت یا انتہا پسندانہ نظریات کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی ادارے پاکستان پر دوبارہ گرے لسٹ میں شامل ہونے کا دباؤ ڈال سکتے ہیں، جو ملک کی معیشت اور بین الاقوامی مالی تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

حکومت نے صدر کے اعتراضات پر غور کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مجوزہ بل کی تشکیل میں بین الاقوامی معاہدوں اور ایف اے ٹی ایف کی ہدایات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق مدارس کی رجسٹریشن کا عمل شفاف اور قانون کے دائرے میں ہوگا تاکہ بین الاقوامی سطح پر کوئی اعتراض نہ اٹھایا جا سکے۔

جمعیت علمائے اسلام نے صدر کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے ان پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ جے یو آئی کے ترجمان اسلم غوری کا کہنا ہے کہ ایوان صدر بیرونی دباؤ کا شکار ہے اور مدارس کو دہشت گردی سے جوڑنا ایک گمراہ کن پروپیگنڈا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مدارس ملک میں دینی تعلیم کا مرکز ہیں اور ان کے خلاف اس قسم کی قانون سازی پاکستان کی مذہبی شناخت پر حملہ ہے۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے 17 دسمبر کو وفاق اور تنظیمات المدارس کا اجلاس طلب کر لیا ہے، جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ مدارس بل نہ صرف پاکستان کے داخلی معاملات بلکہ اس کی عالمی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی ایک حساس مسئلہ بن چکا ہے، جسے حل کرنے کے لیے حکومت کو تمام فریقین کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔

Website | + posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے