لکی مروت، بنوں اور باجوڑ میں پولیس کا بدامنی اور دہشتگردی کے خلاف احتجاج
انیس ٹکر
خیبرپختونخوا کے تین اضلاع لکی مروت، بنوں اور باجوڑ میں حالیہ بدامنی اور دہشتگردی کے خلاف پولیس کا کئی روز سے احتجاج جاری ہے.
ساوتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق 4 سے 8 ستمبر تک خیبرپختونخوا کے لکی مروت میں پولیس اہلکاروں پر متواتر حملے ہوئے ہیں۔ 4 ستمبر کو نوارخیل گاؤں میں نامعلوم حملہ آوروں نے پولیس کانسٹیبل وقار احمد کو صبح کے وقت گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ دو دن بعد 6 ستمبر کو مستی خیل علاقے میں پولیس ہیڈ کانسٹیبل عبد الرحمان کو گولی مار اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ تعطیلات پر اپنے گھر پر آئے ہوئے تھے۔ ایک ہی دن بعد 7 ستمبر کو ضلع لکی مروت میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر شفقت اللہ کے دو بھائیوں جن میں ایک پولیس ہیڈ کانسٹیبل بھی شامل تھا، کو موٹر سائیکل سواروں نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ اس واقعے کے اگلے روز 8 ستمبر کو مانگترہ علاقے میں ایک پولیس تفتیشی افسر بھی نامعلوم حملہ آوروں کے حملے میں شہید ہوگیا۔
اطلاعات کے مطابق ان تمام واقعات کے خلاف لکی مروت میں چار دن دن سے دھرنا جاری ہے جسکی وجہ انڈس ہائی وے پر ہر قسم. آمدورفت بند ہے. ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کا مطالبہ ہے کہ دہشگردوں کا پولیس پر بے جا حملے اور ٹارگٹ کلنگ بند کیا جائے. مطالبات منظور نہ ہونے کی وجہ سے لکی مروت میں پولیس اہلکاروں کا احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے جس میں مظاہرین نے رات سڑکوں پر گزاری۔ احتجاج کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے پولیس نے ضلع کے داخلی اور خارجی تمام راستے بند کر دیے ہیں۔ لکی مروت، گمبیلا اور سرائے نورنگ سمیت پورے ضلع میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ تمام کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ جو دکانیں کھلی پائی گئیں ان کا نقصان دکاندار خود برداشت کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے سرائے نورنگ اور لکی سٹی میں کاروباری مراکز بند کرانے کے لیے 100 پولیس اہلکار تعینات کیے ہیں۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان کئی مذاکراتی دور ہو چکے ہیں لیکن کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
کاونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (CTD) کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں خیبر پختونخوا میں 179 دہشت گردی کے واقعات ہوئے جن میں 91 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ جن میں جنوری میں 60، فروری میں 38، مارچ میں 33، اور اپریل میں 48 واقعات رپورٹ ہوئے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں فروری میں 31 دہشت گردوں کی ہوئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 19 دہشت گرد دیر اسماعیل خان اور 14 شمالی وزیرستان میں ہلاک ہوئے۔
16 ہلاک دہشت گردوں میں محمد قادری، ازمت اللہ، اور فرید اللہ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2 خودکش جیکٹس، 36 دستی بم اور 247 کلوگرام دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔
خیبرپختونخوا پولیس کے آفیشل ویب سائٹ کے مطابق سال 2023 میں کل 137 پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں جن میں تین ڈی ایس پیز، تین انسپکٹرز، آٹھ ایس آئیز، چھ اے ایس آئیز اور باقی 128 اہلکار شامل ہیں.
ساوتھ ایشیا ٹیرریزم پورٹل کا مطابق 6 ستمبر کو بنوں ضلع کے سی پیک ہائی وے سے پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر جو بکا خیل پولیس اسٹیشن میں تعینات تھے، کو نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کر لیا۔ حافظ گل بہادر گروپ نے اغوا شدہ ASI کی تصویر کے ساتھ بیان جاری کیا ہے کہ وہ ہمارے گروپ کے زیر حراست ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بنوں میں بھی پولیس اہلکاروں نے اپنے ایک ساتھی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ہے۔ پولیس نے پولیس لائن چوک میں لاش رکھ کر دھرنا دیا ہے۔ مذاکرات کے لیے ڈی پی او، ایس پی اور ڈی ایس پیز نے کوششیں کی لیکن مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کا بدلہ لینے کے لیے وقت دے سکتے ہیں لیکن احتجاج کرنے کے لیے نہیں۔ تاجروں اور عام شہریوں نے بھی اس احتجاج میں کثیر تعداد میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ مظاہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ آخری لاش تصور کی جائے اگر مزید کوئی جانی نقصان ہوا تو حالات انتہائی سنگین ہو جائیں گے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ قاتل کو زندہ یا مردہ گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔
اس طرح باجوڑ میں بھی دہشت گردی کے خلاف پولیس کا احتجاج جاری ہے۔ پولیس اہلکاروں نے سول کالونی پولیس لائن گراؤنڈ میں خیمے نصب کر دیے ہیں اور ضلع بھر میں ڈیوٹی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ احتجاج میں ضلع بھر سے پولیس اہلکاروں کی شرکت کا سلسلہ جاری ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور مقامی لوگ بھی مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔ مظاہرین نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔ پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ جب تک فوج اور ایف سی ان کے ساتھ پولیو ڈیوٹی نہیں کریں گے تب تک وہ پولیو ڈیوٹی سے بائیکاٹ جاری رکھیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دیگر اضلاع کی پولیس بھی اس احتجاج میں شامل ہونے کے لیے رابطے میں ہیں۔