اسرائیل نے جمعہ کو ایران پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے جن میں ایرانی جوہری اور عسکری مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ کارروائی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خطے میں ممکنہ “وسیع تصادم” کی وارننگ کے بعد عمل میں لائی گئی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ ایران کے “جوہری افزودگی کے پروگرام کے دل” پر کیا گیا، اور اس کا ہدف نطنز میں موجود جوہری تنصیبات اور سائنس دان تھے۔
نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ایران کے خلاف یہ کارروائی “جتنے دن بھی درکار ہوں، جاری رہے گی۔”
ایک اسرائیلی سیکیورٹی اہلکار کے مطابق ایران کے چیف آف اسٹاف محمد باقری کو “ممکنہ طور پر ختم کر دیا گیا” ہے۔
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق، تہران کے رہائشی علاقوں پر بھی حملے کیے گئے، جس کے نتیجے میں متعدد شہری، بشمول خواتین اور بچے، جاں بحق ہو گئے۔
یہ حملے رات کے وقت کیے گئے، جن کے دوران تہران کی فضاء میں دھوئیں کے بادل اور شعلے بلند ہوتے دکھائی دیے۔ ایرانی سرکاری خبر رساں ایجنسی “ارنا” کے مطابق، کئی مقامات پر رہائشی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔ عینی شاہدین اور سرکاری ٹی وی کے رپورٹرز نے متاثرہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کی لاشیں دیکھنے کی تصدیق کی۔
ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق، پاسداران انقلاب کی ایک اہم تنصیب پر بھی آگ اور دھماکوں کے مناظر دیکھے گئے، جبکہ نطنز شہر میں بھی شدید دھماکے سنے گئے۔
ایرانی سرکاری خبررساں ایجنسی “ارنا” نے اطلاع دی ہے کہ اسلامی انقلابی گارڈز کور (آئی آر جی سی) کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی بھی اس حملے میں ہلاک ہو گئے۔
اسرائیلی حملے میں ایران کے مرکزی علاقے میں واقع ایک اہم یورینیم افزودگی مرکز نطنز کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ سرکاری ٹی وی نے نطنز سے دھوئیں کے گہرے بادل اٹھتے ہوئے دکھائے۔
تہران کے امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پروازیں روک دی گئیں جبکہ پڑوسی ملک عراق نے بھی اپنی فضائی حدود بند کر دیں اور تمام ہوائی اڈوں پر پروازیں معطل کر دی گئیں۔
اسرائیل نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے اور اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے خبردار کیا کہ تہران کی جانب سے جوابی حملے کا خدشہ موجود ہے۔
کاٹز نے کہا: “اسرائیل کی جانب سے ایران پر پیشگی حملے کے بعد میزائل اور ڈرون حملے کسی بھی وقت اسرائیل اور اس کی عوام پر ہو سکتے ہیں۔”
ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج کو یقین ہے کہ ایران کسی بھی لمحے اسرائیل کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئی
دوسری جانب، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 8 فیصد تک اضافہ ہوا جبکہ اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی دیکھی گئی۔ یہ سب اس وقت ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی صورتحال کے بگڑنے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا: “میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ فوری ہونے والا ہے لیکن یہ بظاہر کوئی ایسی چیز لگتی ہے جو جلد ہو سکتی ہے۔”
ٹرمپ نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر ایک “کافی اچھا” معاہدہ قریب ہے لیکن اسرائیل کی کارروائی ممکنہ طور پر اس معاہدے کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا: “میں نہیں چاہتا کہ وہ (اسرائیل) کارروائی کرے کیونکہ میرا خیال ہے کہ یہ سب کچھ تباہ کر دے گا۔” لیکن انہوں نے فوراً یہ بھی کہا: “شاید یہ مددگار بھی ثابت ہو لیکن یہ نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔”
حملوں میں امریکہ کا کوئی ہاتھ نہیں
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایران کو خبردار کیا کہ وہ اسرائیلی حملوں کے جواب میں امریکی اڈوں کو نشانہ نہ بنائے کیونکہ امریکہ ان حملوں میں شامل نہیں۔
روبیو نے ایک بیان میں کہا: “صاف طور پر کہا جائے کہ ایران کو امریکی مفادات یا اہلکاروں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔”
انتہا پسندانہ اقدام
امریکہ نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ عراق میں اپنے سفارتی عملے کو کم کر رہا ہے یہ خطہ طویل عرصے سے ایران کے ساتھ پراکسی تنازعات کا مرکز رہا ہے۔
اسرائیل، جو امریکہ کی عسکری اور سفارتی حمایت پر انحصار کرتا ہے، ایران کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور گزشتہ سال بھی ایرانی فضائی دفاعی نظام پر حملے کر چکا ہے۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک، بشمول اسرائیل، ایران پر اکثر الزام لگاتے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کی ایران مسلسل تردید کرتا آیا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ قرارداد پر ایران کے جوہری سربراہ محمد اسلامی نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے “انتہا پسندانہ” قرار دیا اور اس کا ذمہ دار اسرائیلی دباؤ کو ٹھہرایا۔
اس قرارداد کے جواب میں ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک نیا افزودگی مرکز ایک محفوظ مقام پر قائم کرے گا اور فردو یورینیم پلانٹ میں تمام فرسٹ جنریشن مشینوں کو سکس جنریشن کی جدید مشینوں سے تبدیل کرے گا۔
ایٹمی توانائی کی ایرانی تنظیم کے ترجمان بہروز کمالوندی نے کہا کہ ایران اب 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہا ہے، جو 2015 کے معاہدے میں طے شدہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے اور جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح کے بہت قریب ہے۔
نوٹ: یہ تمام معلومات ڈان ڈاٹ کام اور اے ایف پی سے لئے گئے ہیں۔ اس سٹوری میں مزید بھی ڈیولپمنٹ ہو سکتی ہے جو کہ وقتا فوقتا اپلوڈ کئے جائیں گے۔