خیبر پختونخوا میں صحافت: سچ بولنے کی قیمت اور تحفظ کی ضرورت
خالدہ یوسفزئی
پاکستان میں صحافت ہمیشہ سے ایک پرخطر پیشہ رہا ہے، مگر خیبر پختونخوا (کے پی) میں صحافیوں کو درپیش خطرات خاص طور پر پیچیدہ اور سنگین ہیں۔ اس کی وجہ یہاں کی سکیورٹی صورتحال، شدت پسندی، قبائلی اور مذہبی حساسیت، اور مقامی سیاسی دباؤ ہے۔ ایسے ماحول میں صحافیوں کے لیے محفوظ رپورٹنگ اور ذاتی سلامتی نہ صرف ایک چیلنج بلکہ ایک مسلسل جدوجہد بن چکی ہے۔
سکیورٹی خطرات
خیبر پختونخوا، خاص طور پر ضم شدہ قبائلی اضلاع جیسے وزیرستان، باجوڑ اور کرم میں صحافیوں کو جان کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ شدت پسند گروہوں کی موجودگی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں، اور مختلف مسلح تنظیموں کے مفادات کے ٹکراؤ کے باعث یہاں رپورٹنگ انتہائی حساس بن چکی ہے۔ کئی صحافیوں کو دھمکیاں ملتی ہیں، اغوا کیا جاتا ہے، اور بعض اوقات جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
رپورٹنگ کرتے وقت صحافیوں پر تین اطراف سے دباؤ ہوتا ہے: عسکریت پسند گروہ، سکیورٹی ادارے، اور مقامی سیاسی یا قبائلی طاقتیں۔ ہر فریق چاہتا ہے کہ ان کے بیانیے کو ترجیح دی جائے، اور اگر صحافی غیرجانبداری سے کام لے تو اسے “دشمن” تصور کیا جاتا ہے۔
ادارہ جاتی تحفظ کی کمی
خیبر پختونخوا میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کوئی مؤثر ادارہ جاتی میکانزم موجود نہیں ہے۔ اکثر میڈیا ہاؤسز فیلڈ رپورٹنگ کے دوران اپنے نمائندوں کو مناسب تربیت، سکیورٹی آلات، یا انشورنس فراہم نہیں کرتے۔ کئی صحافی فری لانس حیثیت سے کام کرتے ہیں، جنہیں نہ تنخواہ کی گارنٹی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی قانونی تحفظ۔
پریس کلبز اور یونینز بعض اوقات آواز بلند کرتے ہیں، لیکن ان کی رسائی اور طاقت محدود ہوتی ہے۔ جب کوئی صحافی حملے کا شکار ہوتا ہے تو اکثر مجرموں کو سزا نہیں دی جاتی، جس سے بے خوفی کے ساتھ صحافیوں پر حملے کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
خود ساختہ سنسرشپ
اس عدم تحفظ کے ماحول میں صحافی اکثر خود ساختہ سنسرشپ پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مخصوص موضوعات جیسے فوجی آپریشنز، شدت پسندی، یا بدعنوانی پر رپورٹنگ کرتے وقت وہ محتاط الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں یا مکمل طور پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ رجحان صحافت کی اصل روح، یعنی حقائق تک عوام کی رسائی، کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
خواتین صحافیوں کے مخصوص مسائل
خیبر پختونخوا میں خواتین صحافیوں کو دوہری مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ سکیورٹی خطرات کا سامنا کرتی ہیں، دوسری طرف انہیں سماجی و ثقافتی رکاوٹوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ خواتین رپورٹرز کے لیے فیلڈ میں کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ بعض علاقوں میں ان کا باہر نکلنا ہی معیوب سمجھا جاتا ہے۔
ممکنہ حل اور سفارشات
تحفظ کے لیے قانون سازی: خیبر پختونخوا حکومت کو صحافیوں کے تحفظ کے لیے مؤثر قانون سازی کرنی چاہیے، جیسے “پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ” کو صوبائی سطح پر لاگو کرنا۔
سکیورٹی تربیت: میڈیا اداروں کو چاہیے کہ صحافیوں کو سکیورٹی اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت دیں، خاص طور پر وہ رپورٹرز جو حساس علاقوں میں کام کرتے ہیں۔
انشورنس اور مالی تحفظ: صحافیوں کے لیے زندگی اور صحت کی انشورنس کو لازمی بنایا جانا چاہیے، تاکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں ان کے خاندان محفوظ رہیں۔
ڈیجیٹل سکیورٹی کی تربیت: چونکہ آن لائن ہراسانی، ہیکنگ، اور ڈیجیٹل جاسوسی بھی ایک بڑا خطرہ ہے، اس لیے صحافیوں کو سائبر سکیورٹی کی تربیت دی جانی چاہیے۔
صحافیوں کی یونینز کو مضبوط کرنا: صحافیوں کی یونینز کو مزید بااختیار بنانے اور مقامی، قومی، اور بین الاقوامی اداروں سے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
صحافی معاشرے کی آنکھ اور زبان ہوتے ہیں، اور اگر وہ خود محفوظ نہ ہوں تو سچ تک عوام کی رسائی ممکن نہیں رہتی۔ خیبر پختونخوا میں صحافیوں کو درپیش خطرات صرف ان کا نہیں بلکہ پوری جمہوریت کا مسئلہ ہیں۔ محفوظ صحافت کے بغیر نہ تو اچھی حکمرانی ممکن ہے اور نہ ہی عوام کی فلاح۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، میڈیا ادارے، اور سول سوسائٹی مل کر ایسے اقدامات کریں جن سے صحافیوں کو آزادی اور سلامتی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع مل سکے۔