جب عورت بولتی ہے، معاشرہ سنبھلتا ہے
بخت محمد یوسفزئی
وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ…
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سرنگ…
عورت ربِ کائنات کا وہ حسین تحفہ ہے، جس کے بغیر زندگی کی تصویر ادھوری ہے۔ وہ ماں ہو تو دعاؤں کا سایہ، بیٹی ہو تو رحمت، بہن ہو تو دل کا سکون، اور بیوی ہو تو زندگی کا سہارا۔ لیکن جب یہی عورت معاشرے کے نظام میں، خصوصاً سیاست جیسے اہم شعبے میں نظر انداز کی جاتی ہے، تو نتائج صرف عورت تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورا معاشرہ اس کی قیمت چکاتا ہے۔
خواتین کی سیاست میں عدم شمولیت: ایک سنجیدہ مسئلہ
مردان، خیبرپختونخوا کا دوسرا بڑا ضلع، جہاں آبادی 30 لاکھ کے قریب ہے، وہاں کی سیاسی تصویر میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2024 کے عام انتخابات میں، ضلع کے 3 قومی اور 8 صوبائی حلقوں میں صرف 3 خواتین نے قسمت آزمائی کی—وہ بھی دو آزاد حیثیت سے جبکہ ایک خاتون مذہبی جماعت کی امیدوار تھیں۔
پی کے 55 سے لبنیٰ فہیم، پی کے 56 سے انیلہ شہزاد اور پی کے 57 و این اے 22 سے عنبرین عرف حنا نے انتخابات میں حصہ لیا، لیکن عوامی سطح پر انہیں وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کی وہ مستحق تھیں۔
2024 کے عام انتخابات میں ضلع مردان میں خواتین کی سیاسی شمولیت نہایت محدود رہی۔ مجموعی طور پر 3 قومی اور 8 صوبائی حلقوں میں صرف 3 خواتین امیدواروں نے حصہ لیا۔ ان میں سے دو خواتین آزاد حیثیت سے جبکہ ایک خاتون نے مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (TLP) کی جانب سے انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کی۔
تفصیلات کے مطابق، پی کے 55 سے لبنیٰ فہیم، پی کے 56 سے انیلہ شہزاد نے آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا، جبکہ پی کے 57 اور این اے 22 سے عنبرین عرف حنا نے تحریک لبیک پاکستان کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ ان حلقوں میں خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن کے باوجود ووٹ ڈالنے کی شرح مردوں کی نسبت کافی کم رہی، جو خواتین کی سیاسی عمل میں کم شمولیت کی نشاندہی کرتی ہے۔
اعداد و شمار، جن سے سچ عیاں ہوتا ہے انتخابی عمل میں صرف امیدواروں کی کمی ہی نہیں، بلکہ ووٹر کے طور پر بھی خواتین کی شمولیت نہایت کم رہی۔
مثلاً: پی کے 54 میں رجسٹرڈ مرد ووٹرز 1,04,850 تھے، جن میں سے 49,525 نے ووٹ کاسٹ کیے، جب کہ خواتین ووٹرز 85,102 تھیں لیکن صرف 33,965 نے ووٹ ڈالے۔
پی کے 55 میں مرد ووٹرز 1,13,045 (ووٹ پول 59,425) اور خواتین 94,877 (ووٹ پول 33,552) تھیں۔
پی کے 56 میں مرد ووٹرز 1,01,621 (پول ووٹ 48,382) اور خواتین 85,115 (پول ووٹ 27,012) تھیں۔
پی کے 57 میں مرد ووٹرز 1,00,733 (ووٹ پول 54,653) اور خواتین 84,027 (پول ووٹ 27,107) تھیں۔
اسی طرح پی کے 58میں مرد ووٹوں کی رجسٹڈ تعداد 116,225 تھی جس میں 55,634 ووٹ پول ہوئے تھے جبکہ اسی حلقہ میں خواتین ووٹوں کی رجسٹرڈ تعاد 100،908 تھی جس میں 27،493 ووٹ پول ہوئے تھے.. پی کے 59 میں 2024 کے عام انتخابات میں مرد ووٹوں کی کل تعداد 99،304جس میں 49،033 ووٹ پول ہوئے تھے جبکہ اس حلقہ میں خواتین کی رجسٹرڈ 79،380 تھی جس میں 26،145 ووٹ پول ہوئے.
اسی طرح پی کے 60 میں مرد ووٹوں کی رجسٹڈ تعداد 102،837 تھی جس میں 82،720 ووٹ پول ہوئے تھے جبکہ اسی حلقہ میں خواتین82، 722ووٹوں کی رجسٹرڈ تعاد تھی جس میں 31،618ووٹ پول ہوئے تھے.. پی کے 61 میں 2024 کے عام انتخابات میں مرد ووٹوں کی کل تعداد 103،081جس میں 52،943 ووٹ پول ہوئے تھے جبکہ اس حلقہ میں خواتین کی رجسٹرڈ 84،253 تھی جس میں 33،760 ووٹ پول ہوئے.
اسی طرح 2024 کے دوسرے مہینے کے 8 تاریخ کو ہونے والے عام انتخابات میں قومی اسمبلی این اے 21 میں کل مرد ووٹوں کی تعداد 284،002 جبکہ ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 146،947 جبکہ خواتین کہ رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 235،737 جس میں خواتین نے 88،446 ووٹ پول کئے. اسی طرح این اے 22 مردان 2 میں 2024 کے انتخابات میں مرد رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 302،495 تھی جس میں 145،935 ووٹ پول ہوئے، اور خواتین کی رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 255،730 تھی جس میں اس وقت خواتین نے 75،052 ووٹ پول ہوئے. اس طرح این اے 23 مردان 3 میں کل مرد رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 253،199 تھی جس میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 128،210 ووٹ پول ہوئے اس قومی حلقہ میں خواتین کی رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 204،915 تھی جس میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 74،888 تھی. یہ اعدادوشمار نہ صرف خواتین کی انتخابی عمل میں کم شمولیت کو ظاہر کرتے ہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی رویے کا بھی عکاس ہیں کہ ہم عورت کو فیصلہ سازی میں شریک کرنے سے کتراتے ہیں۔
اس انتخابی میدان میں سرگرم خاتون جو کہ تحریک لبیک پاکستان کی قومی و صوبائی ٹکٹ پر انتخابات لڑ رہی تھی کا کہنا ہے کہ پارٹی نے برائے نام نمائندگی کرتے ہوئے مجھے موقع دیا ہے اور وہ بھی ایسے علاقے میں جہاں پر اس کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے اور اس حالت میں جب میں ووٹ مانگنے کے لئے باہر نکلتی ہوں تو میرا مزاق اڑایا جاتا ہے خواتین خود کہتی ہیں کہ ہمارے مرد کہتے ہیں کہ یہ کیا تمھارے مسائل حل کرہنگے. یہ تو ویسے ہی سیاست کو بدنام کرنے کےلئے میدان میں اتری ہے. یہ مردوں کا معاشرہ خواہ مخواہ اپنا اور لوگوں کا وقت اور ووٹ برباد کرتے ہیں. میں جب گھر سے نکلتی ہوں تو مجھے وہ ماحول میسر نہیں جوکہ مرد امیدواروں کو ہوتا پے مگر میں اس میں اپنے والد محترم اور اپنے شوہر کا نہایت مشکور و ممنون ہوں جنھوں نے مجھے یہ موقع دیا.
جب عورت شامل ہو، تو امن بولتا ہے
تحقیقات اور عالمی تجربات بتاتے ہیں کہ جہاں عورت قیادت میں ہو، وہاں معاشرے زیادہ پرامن، متوازن اور ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ عورت کے دل میں ممتا کا جو جذبہ قدرت نے رکھا ہے، وہ اسے نرم خو، ہمدرد اور انصاف پسند بناتا ہے۔ یہی اوصاف سیاست میں لائے جائیں تو قانون سازی سے لے کر پالیسی سازی تک وہ محروم طبقات، بالخصوص خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے لیے آواز بنتی ہے۔
خواتین کی سیاست میں شرکت کے فوائد
بہتر قانون سازی جو خواتین کے حقوق کا تحفظ کرے.
صنفی مساوات کا فروغ
گھریلو و معاشرتی تشدد میں کمی
عوامی مسائل کا مؤثر حل
پرامن، ترقی یافتہ اور خوشحال معاشرہ
آگے کا راستہ: صرف تقاریر نہیں، عملی اقدامات
وقت آگیا ہے کہ ہم صرف خواتین کے عالمی دن یا سیمینارز تک محدود نہ رہیں بلکہ عملی طور پر ان کی سیاست میں شمولیت کو یقینی بنائیں۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے پلیٹ فارمز پر خواتین کو برابری کی بنیاد پر موقع دینا ہوگا۔ انتخابی اصلاحات، سیاسی تربیت، سیکیورٹی، اور سماجی حمایت کے بغیر خواتین کی بھرپور شرکت ممکن نہیں۔
جب عورت لب کشائی کرتی ہے، تو وہ صرف اپنے لیے نہیں، پورے معاشرے کے لیے بولتی ہے۔ وہ امن کی بات کرتی ہے، تعلیم کی، صحت کی، انصاف کی۔ اگر ہم ایک پُرامن اور ترقی یافتہ مردان چاہتے ہیں تو ہمیں عورت کو صرف گھر کی چار دیواری سے نکال کر اسمبلی کی دیواروں تک پہنچانا ہوگا—جہاں وہ صرف سننے والی نہیں، بولنے والی، فیصلہ کرنے والی اور قیادت کرنے والی ہو۔
کیونکہ، “عورت صرف وجود نہیں، وہ ایک نظریہ ہے—امن، محبت اور تبدیلی کا۔”