سناٹا بول پڑا ہے, سیاست اور معاشرے میں عورت کا بڑھتا کردار

سناٹا بول پڑا ہے, سیاست اور معاشرے میں عورت کا بڑھتا کردار

بخت محمد یوسفزئی

رات کے آخری پہر جب شہر سوجاتا ہے، جب دیواروں سے وقت سرکنے لگتا ہے، تب کہیں دور سے قدموں کی ہلکی چاپ سنائی دیتی ہے۔ یہ کسی بادشاہ یا فاتح کی آمد نہیں، یہ ایک عورت کی خاموش مگر باوقار واپسی ہے۔ وہ جو صدیوں تک پردے، پابندی اور پسماندگی کے سائے میں رہی، اب آگے بڑھ رہی ہے, قلم ہاتھ میں، آواز لب پر اور مقصد دل میں لیے۔

یہ عورت صرف گھر کے در و دیوار تک محدود نہیں رہی۔ وہ گلی، بازار، عدالت، اسکول اور اسمبلی تک پہنچی ہے۔ ماضی میں فاطمہ جناح نے جب سیاسی میدان میں قدم رکھا تو یہ صرف ایک انتخابی مہم نہیں تھی، بلکہ سوچوں کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ وہ وقت یاد کیجیے جب بینظیر بھٹو نے گولیوں اور دھمکیوں کے بیچ، ایک مردانہ سیاسی ماحول میں قیادت سنبھالی۔ اُن کی موجودگی صرف ایک فرد کی نہیں، ایک نظریے کی نمائندگی تھی کہ عورت بھی رہنما ہو سکتی ہے۔

آج بھی پاکستان کی پارلیمان میں درجنوں خواتین، چاہے وہ کسی بھی جماعت سے ہوں، قانون سازی اور پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ خواتین صرف “نمائشی” سیٹوں کی حد تک محدود نہیں، بلکہ سیشنز میں اپنی مؤثر موجودگی، تجاویز اور مزاحمت کے ذریعے بھرپور شرکت کرتی ہیں۔
اگر بات کی جائے ضلعی سطح پر خواتین کی نمائندگی کی تو مردان جیسے ضلع میں جہاں پر دہی علاقے بھی ہیں. جسے کہ تحصیل کاٹلنگ، تحصیل گھڑی کپورہ، اور تحصیل رستم و تحصیل تخت بھائی جہاں پر اب انتظامی عہدوں پر بھی خواتین کی نمائندگی اس بات کی دلیل ہے کہ اب کافی حد تک سوچوں اور رویوں میں تبدیلی آچکی ہے. اسسٹنٹ کشمنر گل بانو جس کا تعلق روایتی پختون گھرانے سے ہے، ڈاکٹر اسسٹنٹ کمشنر ثمن عباس، ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر سحر انور، ایڈیشنل اسسٹنٹ نتاشہ، اور ان جیسے کئی مثالیں ہیں جوکہ اسی علاقوں میں اہم انتظامی عہدوں پر مردوں کے درمیاں بہترین کام کر چکے ہیں.

اسی طرح عدلیہ میں بھی نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ ایک وقت تھا جب خواتین ججوں کا تصور غیر معمولی لگتا تھا، مگر آج جسٹس عائشہ ملک جیسی باوقار شخصیات سپریم کورٹ میں بیٹھ کر فیصلے سنا رہی ہیں۔ عدالتوں میں خواتین وکلا کی مؤثر موجودگی اور بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت نہ صرف انصاف مانگتی ہے، بلکہ انصاف فراہم بھی کر سکتی ہے۔اور اگر بات کی جائے مردان باروم کی تو پہلے کی نسبت اس میں خواتین کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے یہ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پہلے جہاں عورت خود انصاف کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھایا کرتی تھی اب دوسروں کےلئے انصاف کی آواز بلند کرتی ہیں اور
اب مردَن باروم میں خواتین وکلا کی تعداد سنچری کے قریب ہے اور وہ بہترین انداز میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسکے علاوہ تحصیل تخت بھائی کے کابینہ میں خاتون کا انتخاب یہ ثابت کرتی ہیں کہ کسی حد تک ہواؤں کا رخ تبدیل ہوچکا ہے.
میڈیا کے شعبے میں بھی عورت کا کردار ناقابلِ انکار ہے۔ آج ٹی وی اسکرینوں پر عاصمہ شیرازی، غریدہ فاروقی اور نسیم زہرہ جیسے نام صرف خبریں سنانے تک محدود نہیں، بلکہ فکری رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ رپورٹر سے لے کر ایڈیٹر تک، خواتین نے میڈیا کے ہر شعبے میں خود کو منوایا ہے۔اور اس طرح مردان ضلع پر نظر ڈالی جائے تو مردان شہر اور رستم تحصیل کے کابینہ میں ایک لڑکی کا شامل ہونا امید کی کرن ثابت ہوتی ہے. مردان میں اب مہناس، ماہین، رحما یوسفزئی، حوریہ، پلوشہ، صفامروہ، علیمہ، ایمان جیسے کئ نام ہیں جوکہ فعال صحافت کرتی ہیں.

لیکن سیاست اور میڈیا ہی سب کچھ نہیں۔ تعلیم کا میدان جسے کبھی خواتین کے لیے تنگ سمجھا جاتا تھا، آج یونیورسٹیوں میں طالبات کی شرح کئی شعبوں میں طلبہ سے زیادہ ہے۔ خواتین اساتذہ ریسرچ، تدریس اور نصاب سازی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ملالہ یوسفزئی کی مثال عالمی سطح پر عورت کی تعلیمی جدوجہد کی علامت بن چکی ہے۔

طب کا شعبہ بھی اسی جدوجہد کی ایک اور کامیاب جھلک ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا نیٹ ورک دیہی علاقوں تک طبی سہولیات پہنچانے میں سنگِ میل ثابت ہوا ہے۔ اسپتالوں میں ڈاکٹرز، نرسز اور طبی ماہرین کی ایک بڑی تعداد خواتین پر مشتمل ہے جو دن رات مریضوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔

ٹیکنالوجی اور سائنس جیسے شعبے بھی اب مردوں کی اجارہ داری سے آزاد ہو رہے ہیں۔ ارفع کریم کی مثال ہو یا آج کی نوجوان خواتین آئی ٹی ماہرین، سائنسدان یا انٹرپرینیورز، انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ کوڈنگ ہو یا تحقیق، کسی صنف کی محتاج نہیں۔

مگر یہ سفر آسان نہیں رہا۔ اسے ہر موڑ پر مزاحمت، طعنہ، اور کردار کشی کا سامنا رہا۔ آج بھی جب وہ آواز اٹھاتی ہے تو اسے “اچھی عورت” ہونے کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کی تصویر سے زیادہ، اس کے نظریات پر حملے ہوتے ہیں۔ لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹتی، وہ دلیل دیتی ہے، وہ کھڑی رہتی ہے۔

اس عورت نے ثابت کیا ہے کہ وہ فقط جذبات کی علامت نہیں، عقل و حکمت کی وارث بھی ہے۔ وہ صرف قربانی نہیں دیتی، قیادت بھی کرتی ہے۔ آج کی عورت نے یہ باور کرایا ہے کہ معاشرہ صرف مرد کی طاقت سے نہیں، عورت کی شعور سے بھی ترقی کرتا ہے۔

وقت آ چکا ہے کہ اسے صرف تحفظ یا ترس کے زاویے سے نہ دیکھا جائے، بلکہ شراکت اور قیادت کے مساوی حق کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اب سناٹا بول پڑا ہے اور اس کی زبان ایک باخبر، باشعور عورت ہے۔

Website |  + posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے