امتحانی دباؤ اور خودکشی: ایک سنگین معاشرتی المیہ
تحریر: انیس ٹکر
پاکستانی معاشرہ آج ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں تعلیمی کامیابی کو صرف اعلیٰ نمبروں اور گریڈز تک محدود کر دیا گیا ہے۔ جیسے ہی امتحانات کا موسم قریب آتا ہے، طلباء پر گھر اور اسکول دونوں جگہوں سے دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ والدین کی بلند توقعات، اساتذہ کی سختی، اور معاشرتی مقابلے بازی کا ماحول مل کر بچوں کو ایک ایسے ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیتا ہے جہاں کامیابی صرف A+ یا ٹاپ پوزیشن کے گرد گھومتی ہے۔ بدقسمتی سے یہی رویہ بعض اوقات طلباء کو ذہنی دباؤ، ڈپریشن، حتیٰ کہ خودکشی جیسے افسوسناک قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 800,000 افراد خودکشی کرتے ہیں، جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ خاص طور پر 15 سے 19 سال کے نوجوانوں میں خودکشی دنیا بھر میں موت کی تیسری بڑی وجہ بن چکی ہے۔ ایک حالیہ عالمی جائزے کے مطابق، نوجوانوں میں خودکشی کی شرح 3.77 فی 100,000 ہے، جب کہ 90 فیصد سے زائد خودکشی کرنے والے نوجوانوں کا تعلق کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک سے ہوتا ہے۔ نوجوانی کا مرحلہ جسمانی، ذہنی اور جذباتی طور پر بہت حساس ہوتا ہے۔ اسی لیے اس عمر میں اگر بروقت رہنمائی اور ذہنی معاونت فراہم نہ کی جائے تو نتائج نہایت خطرناک ہو سکتے ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں 10 سے 19 سال کے افراد کل آبادی کا تقریباً 23 فیصد ہیں، وہاں صورتحال مزید تشویشناک ہے کیونکہ ملک میں ذہنی صحت سے متعلق مستند اور جامع ڈیٹا کا فقدان ہے۔ سرکاری سطح پر خودکشی کے واقعات کی باقاعدہ رپورٹنگ نہ ہونے کے باعث اصل مسئلہ پسِ پردہ چلا جاتا ہے۔ ایسے میں میڈیا رپورٹس اور تحقیقاتی مطالعے ہی وہ ذرائع ہیں جو ہمیں اس المیے کی شدت کا اندازہ دیتے ہیں۔

ریسرچ پیپر ،خیبرپختونخوا کی سطح پر طلباٗ کے سکول چھوڑنے اور خودکشی کے رجحان، والدین کی جانب سے امتحانات میں اچھے نمبروں کے لیے ڈالا گیا غیر ضروری دباؤ، طلباء میں ایگزام فوبیا یا امتحانی خوف پیدا کرتا ہے، جو ان کی تعلیمی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کو بھی برباد کر دیتا ہے۔ مطالعے سے پتا چلا کہ کم تعلیم یافتہ یا معاشی طور پر کمزور گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں میں یہ دباؤ نسبتاً زیادہ پایا گیا، جو اکثر اسکول چھوڑنے یا خودکشی جیسا انتہائی اقدام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ جب بچوں پر مسلسل امتحانی دباؤ ڈالا جائے تو وہ عدم تحفظ، ناکامی کے خوف اور خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر گھر یا اسکول کا ماحول دوستانہ اور معاون نہ ہو، تو یہ کیفیت مزید گہری ہو جاتی ہے۔ علامات میں نیند کا نہ آنا، تنہائی پسند بن جانا، چڑچڑا پن، اور خود کو ناکام سمجھنا شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں میں ذہنی صحت کے ماہرین، کاؤنسلنگ سیشنز اور سٹوڈنٹس سپورٹ سسٹمز کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے اکثر طلباء اپنی الجھنیں کسی سے بانٹ نہیں پاتے۔
اسلامی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ ہر انسان کو اللہ تعالی نے منفرد صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ قران مجید سورہ النجم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہیں کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جسکی اسس نے کوشش کی۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے ہمیشہ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی لیکن کبھی بھی اسے بوجھ نہیں بنایا۔ ہمیں بطور والدین یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بچوں پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے کے بجائے ان کی صلاحیتوں کو پہچان کر ان کی رہنمائی کریں۔

تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ امتحانی دباؤ نہ صرف خودکشی کا باعث بنتا ہے بلکہ طلباء کے اسکول چھوڑنے کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ اکثر بچے صرف اس خوف سے تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ والدین یا اساتذہ کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکیں گے۔ اس صورتحال کا حل والدین، اساتذہ اور اسکول انتظامیہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ماہرین کا مشورہ ہے کہ ہر اسکول میں ماہانہ بنیادوں پر والدین و اساتذہ اجلاس ماہ پیرنٹ ٹیچر میٹنگ منعقد کیے جائیں، جن میں امتحانی دباؤ، ذہنی صحت، خودکشی کے رجحانات اور تعلیمی کارکردگی پر والدین اور خصوصا بچے کھل کر بات کر سکیں۔
امتحانات زندگی کا صرف ایک پہلو ہیں، پوری زندگی کا مقصد نہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو نمبرات کے بجائے کردار، اخلاق، تخلیقی سوچ اور جذبے کی بنیاد پر سمجھنا اور پرکھنا ہوگا۔ جب ہم ان پر اعتماد کریں گے، ان کی بات سنیں گے، ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیں گے، تو وہ نہ صرف تعلیمی میدان میں کامیاب ہوں گے بلکہ ایک صحت مند اور خوشحال زندگی گزارنے کے قابل بھی بنیں گے۔