کم عمری کی شادی: لڑکیوں کے تعلیمی مستقبل پر پہرہ

کم عمری کی شادی: لڑکیوں کے تعلیمی مستقبل پر پہرہ

صباحت حامد

رابعہ بصری، جو علم کی روشنی میں روشناس ہونے کے لیے بے حد پرجوش تھی. مگر اس کے والدین نے کم عمری میں اس کی شادی طے کر دی۔ وہ کتابوں سے محبت کرتی تھی مگر اسے گھر کی چاردیواری میں مقید کر دیا گیا۔ رابعہ کا خواب تھا کہ وہ استاد بنے، مگر کم عمری میں شادی نے اس کے راستے میں رکاوٹ ڈال دی۔ اس کے باوجود، اس نے ہمت نہیں ہاری اور گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ علم حاصل کرنے کا سفر جاری رکھا۔ آج، وہ ایک معلمہ ہے اور دوسری لڑکیوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ رابعہ کی کہانی ان ہزاروں لڑکیوں کی نمائندگی کرتی ہے جو تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں، مگر کم عمری کی شادیوں کے باعث اپنے خواب ادھورے چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کا مسئلہ

پاکستان میں کم عمری کی شادی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جو نہ صرف لڑکیوں کے تعلیمی مستقبل کو تاریک کرتا ہے بلکہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بھی سنگین اثرات مرتب کرتا ہے۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی شادیاں 18 سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح اور بھی زیادہ ہے۔ بہت سی لڑکیاں، جو تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں، انہیں کم عمری میں شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنی تعلیمی اور ذاتی ترقی کے مواقع سے محروم ہو جاتی ہیں۔

کم عمری کی شادی کے نقصانات

. تعلیم سے محرومی: شادی کے بعد لڑکیاں گھریلو ذمہ داریوں میں الجھ جاتی ہیں اور تعلیم کو جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

. صحت کے مسائل: کم عمری میں ماں بننے کی وجہ سے پیچیدہ طبی مسائل پیدا ہوتے ہیں، جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

. ذہنی دباؤ اور خودکشی: شادی کے بعد ذہنی دباؤ، گھریلو تشدد، اور ناپسندیدہ حالات کی وجہ سے کئی لڑکیاں خودکشی جیسے انتہائی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

. معاشی انحصار: تعلیم کی کمی کی وجہ سے خواتین معاشی طور پر خودمختار نہیں بن پاتیں، جس کے باعث انہیں پوری زندگی دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔



قانونی اور اسلامی نقطۂ نظر

پاکستان میں قانونی طور پر لڑکوں کے لیے شادی کی عمر 18 سال اور لڑکیوں کے لیے 16 سال مقرر کی گئی ہے۔ تاہم سندھ میں یہ عمر 18 سال مقرر کی جا چکی ہے۔ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے مطابق، کم عمری کی شادی میں معاونت کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اسلام بھی شادی میں بالغ اور سمجھدار ہونے کی شرط رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں سورہ النساء (4:6) میں فرمایا گیا ہے:
“اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک آزماتے رہو، پھر اگر تم انہیں ہوشیار پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔”
یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ سمجھداری اور بلوغت شادی کے لیے ضروری شرائط میں شامل ہیں۔ مزید برآں، نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی ان کی مرضی سے کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں لڑکی کی رضا مندی کے بغیر نکاح جائز نہیں۔

حل اور تجاویز

. آگاہی مہمات: کم عمری کی شادی کے نقصانات کے بارے میں والدین، اساتذہ، اور مذہبی رہنماؤں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔

. تعلیم کو لازمی قرار دینا: حکومت کو لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور مفت تعلیم کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔

. سخت قانونی عمل درآمد: کم عمری کی شادی پر پابندی کے قوانین کو سختی سے نافذ کیا جانا چاہیے۔

. معاشی معاونت: غریب خاندانوں کو مالی امداد فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم مکمل کر سکیں اور کم عمری میں شادی پر مجبور نہ ہوں۔

ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے، اپنے خوابوں کو پورا کرے اور ایک خودمختار زندگی گزارے۔ کم عمری کی شادی ان خوابوں کو توڑ دیتی ہے اور لڑکیوں کو ایسے راستے پر ڈال دیتی ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کر پاتیں۔ ہمیں مل کر اس سماجی برائی کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی تاکہ ہر لڑکی کو تعلیم اور بہتر مستقبل کا موقع مل سکے۔

+ posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے