“ذہنی کمزوری جرم نہیں، سمجھنے کا موقع ہے” ماں کی جدوجہد، ایک خاموش پیغام

“ذہنی کمزوری جرم نہیں، سمجھنے کا موقع ہے” ماں کی جدوجہد، ایک خاموش پیغام

انیس ٹکر

“میرا بیٹا مر نہیں گیا، وہ صرف اس دنیا سے ہار گیا جہاں کمزوری کو بیماری نہیں بلکہ شرمندگی سمجھا جاتا ہے۔” یہ دل کو چھو لینے والے الفاظ ایک ایسی ماں کے ہیں جو اب اپنی زندگی بچوں کی ذہنی صحت کے لیے وقف کر چکی ہیں۔

یہ کہانی ایک طالب علم کی ہے جو نہ تو نالائق تھا اور نہ ہی لاپروا لیکن ذہنی دباؤ، کم اعتمادی اور معاشرتی توقعات کے بوجھ تلے آہستہ آہستہ ٹوٹتا گیا۔ ماں بتاتی ہیں کہ ان کا بیٹا ہمیشہ چپ رہنے والا، حساس اور دوسروں کی باتوں کو دل پر لینے والا بچہ تھا۔
“اس نے کبھی بغاوت نہیں کی مگر اس کی خاموشی میں بغاوت چھپی تھی۔ وہ خود کو سمجھا نہیں پایا اور ہم اس کی خاموشی پڑھ نہ سکے۔” ماں کی آنکھیں نم ہو گئیں جب وہ بتا رہی تھیں کہ ان کا بیٹا اکثر راتوں کو جاگتا، دیواروں کو گھورتا اور خود کو کمزور کہتا۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق ایسے بچے “ہائی فنکشننگ اینگزائٹی” کا شکار ہو سکتے ہیں جو بظاہر عام نظر آتے ہیں مگر اندر ہی اندر خود کو ملامت، احساسِ کمتری اور خوف میں جکڑے رکھتے ہیں۔

ماں کہتی ہیں کہ اس کے نمبر کم آئے، لیکن اصل مسئلہ نمبر نہیں تھا بلکہ وہ احساس تھا کہ وہ سب کے لیے ناکام ثابت ہوا ہے۔ ہم نے کبھی اس سے یہ نہیں کہا کہ وہ ہمارے لیے اہم ہے، نمبر نہیں۔

پاکستان میں ذہنی صحت پر تحقیق کرنے والی تنظیم “Rozan” کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک طالب علم کسی نہ کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہے مگر 90 فیصد طلبا کو کبھی نفسیاتی مدد نہیں ملتی۔

اپنے بیٹے کی خاموش تکلیف اور جذباتی ٹوٹ پھوٹ دیکھنے کے بعد، اس ماں نے ہار ماننے کے بجائے فیصلہ کیا کہ وہ اس نظام سے لڑیں گی جو بچوں کی کمزوری کو مجبوری سمجھتا ہے۔

انہوں نے ماہرینِ نفسیات سے رجوع کیا بچوں کی جذباتی نشوونما پر کورسز کیے اور مختلف اسکولز میں جا کر والدین اور اساتذہ کو آگاہ کرنا شروع کیا کہ:


اسلام ہمیں دوسروں کی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے اور ان کے ساتھ نرمی و ہمدردی سے پیش آنے کا درس دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مومن، مومن کا آئینہ ہے وہ اس کی کمزوری کو چھپاتا ہے اور اس کی اصلاح کرتا ہے۔ یہ تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ بچوں کی ذہنی کمزوریوں پر طعنہ نہیں، سہارا دینا فرض ہے۔

یہ ماں اب مختلف تعلیمی اداروں میں مہم چلا رہی ہیں کہ بچوں کی ذہنی نشوونما کو بہتر کیا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا آج بھی میرے ساتھ ہے اس کے درد نے مجھے جگا دیا۔ اگر میری بات سے کوئی ایک ماں یا استاد کسی خاموش بچے کو سن لے، تو میرے بیٹے کی تکلیف بے کار نہیں جائے گی۔

+ posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے