خیبرپختونخوا میں منشیات کی لت، ایک بڑھتا ہوا بحران 

خیبرپختونخوا میں منشیات کی لت، ایک بڑھتا ہوا بحران 

افضل خان مہمند
  
خیبرپختونخوا (KP) میں منشیات کی لت ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جس سے معاشرتی اور اقتصادی نظام کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ افغانستان، جو دنیا میں افیون پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، کے ساتھ صوبے کی طویل اور غیر محفوظ سرحد کے باعث خیبرپختونخوا میں منشیات کی اسمگلنگ اور استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 
  
تشویشناک اعداد و شمار 
  
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) کے مطابق پاکستان میں تقریباً 7.6 ملین افراد منشیات کے عادی ہیں، جن میں سے ایک بڑا حصہ خیبرپختونخوا میں ہے۔ ایک مقامی سروے کے مطابق، پشاور میں ہر 10 میں سے 3 نوجوان کسی نہ کسی قسم کی منشیات کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ “آئس” اور ہیروئن کی لت میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ 
  
منشیات کے استعمال کی وجوہات: 
  
افغانستان سے قربت: 
 غیر محفوظ سرحدی راستے اور کمزور قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات کی اسمگلنگ کو آسان بناتے ہیں۔ 
  
بے روزگاری اور غربت:
 خیبر پختونخوا میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 9.1% ہے، جس کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ کے باعث نشے کا سہارا لیتے ہیں۔ 

  
آگاہی اور بحالی مراکز کی کمی: 
 خیبرپختونخوا میں بحالی مراکز کی تعداد انتہائی محدود ہے، جس کی وجہ سے نشے کے عادی افراد کو علاج کی سہولت میسر نہیں آتی۔ 
  
سماجی دباؤ اور تعلیمی دباؤ: 

 تعلیمی اداروں میں طلبہ امتحانات کے دباؤ اور دوستوں کے اثر و رسوخ میں آ کر منشیات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ 
  
ادویات اور منشیات کی آسان دستیابی: 
 پشاور، مردان اور سوات میں نشہ آور اشیاء کھلے عام فروخت کی جاتی ہیں، جس میں کمزور قانونی عملداری کا بڑا عمل دخل ہے۔ 
  
  
منشیات کے سماجی و معاشرتی اثرات: 
  
صحت پر تباہ کن اثرات: 
 منشیات کے عادی افراد میں HIV/AIDS، ہیپاٹائٹس، جگر اور گردے کی بیماریاں عام ہیں۔ 
  
جرائم اور لاقانونیت میں اضافہ: 
 نشے کے عادی افراد اکثر چوری اور دیگر جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں، جس سے معاشرتی عدم استحکام بڑھتا ہے۔ 
  
خاندانی اور سماجی مسائل: 
 منشیات کے استعمال سے گھریلو جھگڑے، طلاق اور بچوں کی دیکھ بھال میں لاپرواہی جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ 

  
معاشی نقصان: 
 منشیات کی لت پیداواری صلاحیت کو کم کرتی ہے، جس سے معیشت کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان میں منشیات کی لت قوم پر کافی مالی بوجھ ڈالتی ہے، جس سے صحت کی دیکھ بھال، پیداواری صلاحیت اور سماجی استحکام سمیت مختلف شعبوں پر اثر پڑتا ہے۔

ملک میں تقریباً 50 لاکھ منشیات کے عادی افراد کے ساتھ، اور منشیات پر اوسطاً 150 روپے فی عادی روزانہ خرچ ہوتے ہیں، منشیات پر سالانہ براہ راست اخراجات تقریباً 270 ارب روپے بنتے ہیں۔

پاکستان میں منشیات کی غیر قانونی تجارت سے سالانہ 2 بلین ڈالر تک کی آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جو مجرمانہ سرگرمیوں کو ہوا دے رہا ہے اور رسمی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

اموات اور سماجی اثرات:

منشیات کی لت پاکستان میں روزانہ تقریباً 700 جانیں لے لیتی ہے، جس میں سالانہ تقریباً 250,000 اموات ہوتی ہیں۔  اموات کی یہ بلند شرح نہ صرف خاندانوں کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں انسانی سرمائے کے نقصان اور سماجی عدم استحکام میں اضافہ ہوتا ہے۔

یہ عوامل پاکستان میں منشیات کی لت سے پیدا ہونے والے وسیع مالی اور سماجی چیلنجوں کو اجتماعی طور پر اجاگر کرتے ہیں۔
 
  
اسلامی نقطہ نظر: 
  
اسلام میں نشہ آور اشیاء کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: “اے ایمان والو! شراب، جُوا، بت، اور فال کے تیر سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے بچو تاکہ تم فلاح پا سکو۔” (المائدہ 90) 

  
یہ آیت واضح طور پر نشہ آور اشیاء کو حرام قرار دیتی ہے اور ان سے بچنے کی تلقین کرتی ہے۔ مزید برآں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “ہر وہ چیز جو نشہ دے، وہ حرام ہے۔” (صحیح مسلم) 
  
منشیات کے خلاف اقدامات: 
  
1. حکومتی اقدامات: خیبرپختونخوا حکومت نے 2023 میں 300 سے زائد منشیات فروشوں کو گرفتار کیا اور اسمگلنگ کے کئی نیٹ ورکس ختم کیے، مگر بدعنوانی اور کمزور انفراسٹرکچر کے باعث یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ 
  
2. آگاہی مہمات: تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذریعے آگاہی بڑھائی جا رہی ہے، مگر ان اقدامات میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ 

  
3. بحالی اور علاج کے مراکز: خیبرپختونخوا میں صرف 3 بڑے سرکاری بحالی مراکز ہیں، جو ناکافی ہیں۔ حکومت کو مزید بحالی مراکز بنانے کی ضرورت ہے۔ 
  
  
4. سخت قانون سازی اور عملدرآمد: انسداد منشیات قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اسمگلروں کے خلاف مؤثر کارروائی ہو سکے۔ 

پاکستان میں بحالی کے تقریباً 370 مراکز ہیں، جن میں سے 32 خیبر پختونخواہ (کے پی) میں واقع ہیں۔

پنجاب: 189 مراکز
سندھ: 80 مراکز
اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری: 62 مراکز
خیبرپختونخوا: 32 مراکز
بلوچستان: 7 مراکز
رینٹیک ڈیجیٹل

خیبرپختونخوا حکومت نے مردان، پشاور، نوشہرہ، چارسدہ، کوہاٹ، کرک، صوابی، سوات، مالاکنڈ، اور ڈیرہ اسماعیل خان سمیت اضلاع میں 12 ڈیٹوکسیفکیشن اور منشیات کی بحالی کے مراکز قائم کیے ہیں۔

لکی مروت میں ماڈل سنٹر کے ساتھ مزید 12 اضلاع میں اضافی مراکز قائم کرنے کے منصوبے جاری ہیں۔

ان کوششوں کے باوجود علاج کی صلاحیت محدود ہے۔  مثال کے طور پر، صرف پشاور میں، تقریباً 15,000 افراد نشے کی لت کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن موجودہ مراکز میں صرف 2,000 مریضوں کو ہی رکھا جا سکتا ہے۔  میں

وفاقی اقدامات
اینٹی نارکوٹکس فورس (ANF) راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، سکھر اور کراچی میں پانچ ماڈل ایڈکشن ٹریٹمنٹ اینڈ ری ہیبیلیٹیشن سینٹرز (MATRCs) چلاتی ہے۔

یہ مراکز مفت علاج فراہم کرتے ہیں، بشمول detoxification اور بحالی کی خدمات، اور اپنے آغاز سے اب تک مجموعی طور پر 12,000 سے زیادہ مریضوں کا علاج کر چکے ہیں۔
  
خیبرپختونخوا میں منشیات کی وبا ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے، جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ منشیات کے خلاف جنگ میں کامیابی صرف حکومتی اقدامات سے ممکن نہیں، بلکہ عوام، مذہبی رہنماؤں، تعلیمی اداروں اور میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر اس مسئلے پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو ہماری آنے والی نسلیں اس لعنت کا شکار ہو جائیں گی 

+ posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے