خیبرپختونخوا میں سیلابی صورتحال: ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پیدا ہونے والی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے فوری حکومتی اقدامات ناگزیر

خیبر پختونخوا میں سیلابی صورتحال: ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پیدا ہونے والی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے فوری حکومتی اقدامات ناگزیر

تحریر: سید ناصر باچا

خیبر پختونخوا، جو اپنی حسین وادیوں اور قدرتی وسائل کی بہتات کے لیے مشہور ہے، حالیہ برسوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کی زد میں آ چکا ہے۔ ہر سال مون سون کی شدید بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو برباد کرتے ہیں بلکہ قیمتی زرعی زمینیں بہا لے جاتے ہیں اور قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔

صوبے کی جغرافیائی ساخت، جس میں بلند پہاڑ، تنگ وادیاں اور دریاؤں کا جال شامل ہے، ان بارشوں کے اثرات کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ ان علاقوں میں اچانک آنے والے سیلاب اور زمین کا کٹاؤ اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کو مزید خراب جنگلات کی بے دریغ کٹائی، غیر منصوبہ بند تعمیرات اور دریاؤں کے کناروں پر تجاوزات نے کیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی نے اس مسئلے کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے، جس کے نتیجے میں بارشیں اب پہلے سے زیادہ مقدار اور شدت کے ساتھ ہوتی ہیں۔

اس کے اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ سڑکیں اور پل بہہ جاتے ہیں، جس سے دیہی علاقوں کا رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ زرعی زمین تباہ ہو کر کسانوں کو معاشی مشکلات میں دھکیل دیتی ہے۔ ہزاروں خاندان بے گھر ہو جاتے ہیں، اور گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں۔

ایسے حالات میں حکومت کو فوری اور ہمہ گیر اقدامات کرنا ہوں گے۔ دریاؤں کے کنارے حفاظتی بند اور دیواریں تعمیر کی جائیں تاکہ پانی کا بہاؤ قابو میں رکھا جا سکے۔ شہروں اور دیہاتوں میں نکاسی آب کا نظام مؤثر بنایا جائے، اور پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے ذخائر اور تالاب قائم کیے جائیں۔

ابتدائی خبرداری کا نظام بھی بہت اہم ہے۔ جدید موسمیاتی آلات، مقامی خبردار کرنے والے نظام جیسے پیغام رسانی، لاؤڈ اسپیکر یا سائرن نصب کیے جائیں تاکہ بروقت اطلاع دی جا سکے۔ جدید نقشہ سازی اور سیارچرخشی جائزوں کے ذریعے حساس علاقوں کی نشان دہی کی جا سکتی ہے، جس سے منصوبہ بندی میں مدد ملے گی۔

زمین کے استعمال سے متعلق قوانین پر سختی سے عمل درآمد ضروری ہے۔ سیلابی علاقوں میں تعمیرات پر پابندی لگائی جائے، اور بڑے پیمانے پر درخت لگا کر زمین کو کٹاؤ سے بچایا جائے۔ پانی کے بہاؤ کو قابو میں رکھنے کے لیے قدرتی آبی گزرگاہوں کی بحالی اور بہتر انتظام ناگزیر ہے۔

ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تیاری کا نظام بہتر بنانا ہوگا۔ خطرے سے دوچار علاقوں میں عارضی پناہ گاہیں قائم کی جائیں، مقامی افراد کو ہنگامی صورتحال میں مدد کرنے کی تربیت دی جائے، اور خوراک، پانی، ادویات جیسا امدادی سامان پہلے سے محفوظ رکھا جائے۔

زرعی شعبے میں بھی تبدیلیاں ضروری ہیں۔ ایسی فصلیں متعارف کروائی جائیں جو پانی کی زیادتی برداشت کر سکیں۔ زمین کے کٹاؤ کو روکنے والی تکنیکیں جیسے سیڑھی دار کاشتکاری اپنائی جائیں، اور درختوں کی کاشت اور زراعت کا امتزاج (زرعی جنگلاتی نظام) فروغ دیا جائے۔

پالیسی سازی اور حکمرانی کے نظام میں بھی بہتری ناگزیر ہے۔ مربوط آبی نظم و نسق کی پالیسی تیار کی جائے، ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مخصوص فنڈز مختص کیے جائیں، اور وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر ادارہ جاتی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔

عوامی شعور اجاگر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ سیلاب سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر سے متعلق آگاہی مہمات چلائی جائیں، مقامی برادریوں کو منصوبہ بندی میں شامل کیا جائے، اور ان کے روایتی تجربات کو جدید سائنسی طریقوں کے ساتھ یکجا کر کے دیرپا حل تلاش کیے جائیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں حکمتِ عملیوں پر عمل کرے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے پائیدار تعمیرات میں سرمایہ کاری کی جائے، سیلابی رجحانات پر تحقیق کی جائے، اور ترقیاتی منصوبوں میں ماحول دوست طریقے اپنائے جائیں۔

اس کے ساتھ ہی، خیبر پختونخوا کو عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ بین الاقوامی امداد حاصل کی جا سکے، کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا حل عالمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔

یہ درست ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام نے ہر آزمائش میں حوصلہ دکھایا ہے، لیکن صرف عوامی ہمت کافی نہیں۔ اب حکومت کو بھی عملی، فوری اور فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔ آئیے آج ہی سے اپنے حصے کا کردار ادا کریں تاکہ ایک محفوظ، مستحکم اور قدرتی آفات سے محفوظ خیبر پختونخوا کی بنیاد رکھی جا سکے، جو آنے والی نسلوں کے لیے قابل فخر ورثہ ہو۔

+ posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے