پشاور: خیبر پختونخوا اسمبلی نے نگران دور حکومت میں بھرتی ہونے والے ہزاروں سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا بل کثرتِ رائے سے منظور کر لیا۔
یہ بل وزیرِ قانون آفتاب عالم آفریدی کی جانب سے اسمبلی میں پیش کیا گیا جسے ایوان نے منظوری دے دی۔ بل کے مطابق نگران دور حکومت میں غیر قانونی طور پر بھرتی کیے گئے سرکاری ملازمین کو ملازمتوں سے برخاست کیا جائے گا۔ اس عمل کے لیے متعلقہ ادارے جلد نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔
بل میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر اس فیصلے پر عمل درآمد میں کوئی قانونی پیچیدگی سامنے آئی تو اس کا جائزہ لینے کے لیے ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ اس کمیٹی کی سربراہی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کریں گے اور اس میں دیگر اہم عہدیدار شامل ہوں گے، جن میں ایڈووکیٹ جنرل یا ان کا نامزد کردہ، سیکرٹری قانون، سیکرٹری فنانس، اور دیگر متعلقہ محکموں کے سیکرٹریز شامل ہیں۔
وزیر قانون آفتاب عالم آفریدی نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نگران دور حکومت میں 9 ہزار سے زائد ملازمین کو بھرتی کیا گیا تھا، جن میں سے 2,500 سے 3,000 تک ملازمین کو نکالا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھرتیاں غیر قانونی طور پر کی گئی تھیں اور ان کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
ایوان میں اپوزیشن کے رکن احمد کنڈی نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت لوگوں کو روزگار دینے کے بجائے نوکریاں چھین رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی بھرتیوں کے ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے، جبکہ ملازمین کو نکالنے کا یہ فیصلہ عوام دشمنی کے مترادف ہے۔
دوسری جانب، متاثرہ ملازمین نے اس فیصلے کے خلاف شدید احتجاج کی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ حکومت ان کے روزگار کے مواقع ختم کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نگران دور میں کی گئی بھرتیوں کو سیاسی دباؤ کے تحت غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے۔
بل کے مطابق، 22 جنوری 2023 سے 29 فروری 2024 کے دوران بھرتی ہونے والے ملازمین کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ ان ملازمین کی تقرریاں کالعدم قرار دی جائیں گی اور ان کی تمام مراعات فوری طور پر بند کر دی جائیں گی۔
بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سنیارٹی کوٹے یا نگران دور سے قبل انٹرویو دینے والے ملازمین کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ تمام محکمے اس ایکٹ کے نفاذ کے 30 دنوں کے اندر اسٹیبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو رپورٹ پیش کریں گے تاکہ عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔
یہ بل خیبر پختونخوا میں ہزاروں ملازمین کو متاثر کر سکتا ہے اور اس فیصلے سے حکومت اور عوام کے درمیان تناؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔ حکومت نے واضح کیا ہے کہ غیر قانونی بھرتیوں کے خلاف کارروائی قانون کے مطابق کی جائے گی، تاہم اس فیصلے کے خلاف ردِعمل شدت اختیار کر سکتا ہے۔