لاس اینجلس میں ہولناک جنگلاتی آگ: ہزاروں لوگ بے گھر، ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ
امریکہ کے شہر لاس اینجلس اور اس کے مضافاتی علاقوں میں جنگلاتی آگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ یہ آگ ریاست کی تاریخ کی خطرناک ترین آگ میں سے ایک ہے، جو اب تک کم از کم 11 افراد کی جان لے چکی ہے، جبکہ مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ آگ نے نہ صرف 10,000 سے زائد عمارتوں کو تباہ کیا بلکہ لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔
لاس اینجلس کے مختلف علاقوں میں پانچ جگہ بڑی آگ لگی ہوئی ہیں، جن میں سب سے بڑی آگ پالیسائیڈز کے علاقے میں ہے۔ یہ آگ منگل کے روز شروع ہوئی اور اب تک 21,000 ایکڑ سے زیادہ رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ یہ آگ ریاست کی تاریخ کی سب سے تباہ کن آگ بن سکتی ہے۔
ایٹن کی آگ، جو کہ دوسرا بڑا سانحہ ہے، شمالی لاس اینجلس کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے اور اب تک 14,000 ایکڑ زمین کو خاکستر کر چکی ہے۔
دیگر آگوں میں ہرٹز، لیڈیا، اور کینیٹھ شامل ہیں۔ ہرٹز کی آگ کو 70 فیصد، لیڈیا کو 98 فیصد اور کینیٹھ کی آگ کو 50 فیصد قابو میں لایا جا چکا ہے۔
حکام کے مطابق، 153,000 افراد کو اپنے گھروں سے نکلنے کے احکامات دیے جا چکے ہیں، جبکہ مزید 166,000 افراد کو انخلاء کے لیے تیار رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ہزاروں لوگ فوری طور پر اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، جن میں سے بیشتر نے صرف ضروری سامان کے ساتھ پناہ گاہوں کا رخ کیا۔
یہ افراد نہ صرف بے گھر ہو گئے ہیں بلکہ خوراک، پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کی قلت کا بھی شکار ہیں۔ حکومتی امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں، لیکن متاثرین کی بڑی تعداد کی وجہ سے امدادی کام ناکافی دکھائی دے رہے ہیں۔
لاس اینجلس میں اکتوبر سے اب تک صرف 0.16 انچ بارش ہوئی ہے، جس کی وجہ سے علاقے میں شدید خشک سالی کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ ساتھ ہی سانتا انا کی تیز ہوائیں، جو 80 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہیں، آگ کو مزید خطرناک بنا رہی ہیں۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان جنگلاتی آگوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا کلیدی کردار ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے خشک سالی اور غیر معمولی موسمی حالات بڑھتے جا رہے ہیں، جس نے جنگلات کو آگ کے لیے ایندھن بنا دیا ہے۔
گورنر گیون نیوزوم نے پانی کے کم دباؤ اور آگ بجھانے کے آلات کی ناکامی کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیٹی تشکیل دی ہے۔ فائرفائٹرز کو کئی مقامات پر پانی کے کم دباؤ اور بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے آگ بجھانے کے کام میں تاخیر ہوئی۔
نیشنل گارڈ کے دستے متاثرہ علاقوں میں تعینات کیے جا چکے ہیں تاکہ انخلاء کے دوران لوٹ مار کو روکا جا سکے۔ اب تک 20 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں ایک مشتبہ شخص بھی شامل ہے جس پر نئی آگ لگانے کا شبہ ظاہر کیا گیا۔
اس آگ کی وجہ سے کئی مشہور شخصیات کے گھر بھی تباہ ہو چکے ہیں، جن میں اداکار میل گبسن، جیمز ووڈز اور پیرس ہلٹن شامل ہیں۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق، اس آگ کی وجہ سے 8 ارب ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان ہو چکا ہے، کیونکہ متاثرہ علاقے میں قیمتی جائیدادیں واقع ہیں۔
آگ بجھانے کے لیے ہزاروں فائرفائٹرز دن رات محنت کر رہے ہیں، لیکن آگ کی شدت اور تیز ہواؤں کی وجہ سے یہ کوششیں ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔
اگلے چند دنوں میں ہواؤں کی شدت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے آگ کو قابو میں لانے میں مزید دشواری کا سامنا ہوگا۔ تاہم، حکام امید ظاہر کر رہے ہیں کہ آنے والے ہفتوں میں موسم کی صورتحال بہتر ہوگی۔
امریکی حکومت کی تحقیقات کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلی نے مغربی امریکہ میں جنگلاتی آگ کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔ طویل خشک سالی، شدید گرمی، اور غیر معمولی موسمی حالات نے جنگلات کو آگ کا شکار بنا دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلاتی آگ اب صرف ایک موسمی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ پورے سال کا مسئلہ بن چکا ہے، جس کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
لاس اینجلس کی جنگلاتی آگ صرف ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ماحولیاتی اور حکومتی ناکامیوں کی ایک واضح مثال ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف متاثرین کے لیے ایک چیلنج ہے بلکہ عالمی ماحولیاتی پالیسی سازوں کے لیے ایک وارننگ بھی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
نوٹ: اس کہانی کے لئے تمام تر معلومات بی بی سی انگلش سے لی گئی ہے. جو کہ 11 جنوری 2025 بوقت 11 صبح تک اپڈیٹ ہیں.