بگن پر دہشتگردوں کا حملہ: 700 دکانیں اور 1500 گھر نذر آتش، خواتین کی بے حرمتی، 30 افراد زندہ جلائے گئے
پشاور: ضلع کرم کے علاقے بگن پر 22 نومبر کو ہزاروں دہشتگردوں نے حملہ کیا جس میں 700 دکانیں، 1500 گھر، نیشنل بینک، نادرا آفس، تین اسکول، اور دیگر سرکاری و نجی دفاتر کو نذر آتش کر دیا گیا۔ حملے میں 30 افراد کو زندہ جلایا گیا، جن میں خواتین، بوڑھے، اور معذور افراد شامل تھے۔ خواتین کی بے حرمتی کی گئی، جن میں دو خاتون ڈاکٹرز بھی شامل تھیں۔ لوگوں کے کٹے ہوئے سر سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر نمائش کے لیے رکھے گئے۔
اہلسنت والجماعت کے رہنماؤں مفتی شاہنواز، ڈاکٹر عبدالکریم، خواجہ ناہید، اور دیگر نے پارہ چنار میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بگن کے متاثرین کھلے آسمان تلے شدید سردی میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن حکومت اور این جی اوز کی جانب سے اب تک کسی قسم کی امداد فراہم نہیں کی گئی۔
پس منظر: اپر اور لوئر کرم میں حملے
پریس کانفرنس میں رہنماؤں نے بتایا کہ 12 اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں اہلسنت کے قافلے پر حملہ کیا گیا، جس میں خواتین، بچے، اور علماء شامل تھے۔ حملہ آوروں کی فہرست انجمن حسینیہ کو فراہم کی گئی، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
21 اکتوبر کو لوئر کرم میں ایک مشترکہ قافلے پر حملے کے نتیجے میں 42 افراد جاں بحق ہوئے، جس کے بعد 22 نومبر کو بگن پر دہشتگردوں نے چڑھائی کر دی۔
زینبیون کی سرگرمیاں اور حکومت کی خاموشی
رہنماؤں کا کہنا تھا کہ زینبیون ملیشیا نے بگن پر حملے سے ایک روز قبل پارہ چنار میں چیک پوسٹ پر حملہ کیا اور پاکستانی جھنڈا اتار کر اپنا جھنڈا لہرایا۔ زینبیون کے کمانڈرز اب بھی علاقے میں دندناتے پھر رہے ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔
بگن کے متاثرین حکومتی بے حسی کا شکار
پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ بگن کے متاثرین کو نہ تو راشن فراہم کیا گیا ہے اور نہ ہی رہائش کی کوئی سہولت دی گئی ہے۔ دوسری طرف پارہ چنار میں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے امداد پہنچائی جا رہی ہے، جو حکومتی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔
امن معاہدے پر عملدرآمد کی ضرورت
اہلسنت والجماعت نے ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کرم میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک پارہ چنار میں موجود اسلحے کے ذخائر اور زینبیون کے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔
میڈیا سے اپیل
رہنماؤں نے میڈیا کو دعوت دی کہ وہ بگن آکر وہاں ہونے والے مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ انہوں نے کہا کہ کرم میں ہونے والے مظالم کسی بھی عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے کم نہیں، اور ان پر توجہ دینا وقت کی ضرورت ہے۔
زینبیون کی مداخلت اور مسلح کارروائیاں
اہلسنت کے رہنماؤں نے کہا کہ زینبیون ملیشیا کے دہشتگرد نہ صرف بگن میں ملوث تھے بلکہ پارہ چنار میں چیک پوسٹ پر حملہ کر کے پاکستانی جھنڈا اتار کر زینبیون کا جھنڈا لہرایا۔ اس کے باوجود حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔
امن معاہدے اور اپریشن کے مطالبات
اہلسنت والجماعت نے حکومت کی جانب سے اسلحے کے خلاف آپریشن کے فیصلے کی حمایت کی لیکن مخالف فریق نے نہ صرف معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کیا بلکہ ملک بھر میں دھرنے شروع کر دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپر کرم کے کئی علاقے محصور ہیں، جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔
مطالبات
پریس کانفرنس کے اختتام پر مطالبہ کیا گیا کہ:
- ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر فوری عملدرآمد کیا جائے۔
- زینبیون کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
- بگن کے متاثرین کو فوری امداد فراہم کی جائے۔
- ضلع کرم میں امن قائم کرنے کے لیے غیر جانبدارانہ آپریشن کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ کرم میں حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ فلسطین کے مظالم بھی ان کے مقابلے میں کم محسوس ہوتے ہیں۔